لاہور: پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) نے حال ہی میں جو اعداد و شمار جاری کیے ہیں، وہ کپاس کی پیداوار میں خطرناک کمی کی کہانی سنا رہے ہیں۔ 15 دسمبر 2024 تک ملک بھر میں کپاس کی پیداوار 5,367,334 گانٹھوں تک محدود ہو گئی، جو کہ 2023 کی 8,023,707 گانٹھوں سے 33.11 فیصد کم ہے۔ یہ کمی کسی چمچماتی برف کی طرح کپاس کے شعبے کو گرا کر رکھ دیتی ہے، جو پہلے ہی چیلنجز کا شکار ہے۔
پنجاب کا حال تو اور بھی زیادہ پریشان کن ہے، جو ملک کا کپاس کا سب سے بڑا پیدا کرنے والا خطہ ہے۔ یہاں کی پیداوار 2023 میں 3,956,880 گانٹھوں سے 2024 میں 2,593,949 گانٹھوں پر آگئی، یعنی 34.44 فیصد کی کمی! سندھ میں بھی کچھ خاص بہتر صورتحال نہیں، جہاں 2023 میں 4,066,827 گانٹھوں سے 2024 میں 2,773,385 گانٹھوں تک کمی آئی، یعنی 31.80 فیصد کم پیداوار۔ بلوچستان میں بھی کپاس کی پیداوار 156,400 گانٹھوں تک پہنچی۔
سینٹرل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، ملتان کے ساجد محمود نے ان اعداد و شمار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ کپاس کے شعبے کے لیے سنگین مشکلات کی نشاندہی کرتے ہیں، جیسے کہ موسمیاتی تبدیلی، پانی کی کمی اور تحقیق کے لیے ناکافی فنڈز۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے فوری اور جامع اقدامات کی ضرورت ہے، ورنہ کپاس کی پیداوار میں مزید کمی آئے گی اور ملک کی معیشت پر گہرا اثر پڑے گا۔
اب یہ کمی پاکستانی معیشت پر بریک لگانے والی ثابت ہو رہی ہے! ٹیکسٹائل انڈسٹری کو پورا کرنے کے لیے درآمدی روئی پر انحصار بڑھ رہا ہے، اور اس سال کپاس کی درآمد کے لیے تقریباً 2 بلین ڈالر کی ضرورت ہوگی۔ واہ! ایک طرف تو کپاس کی کمی، دوسری طرف عالمی منڈی سے روئی خریدنے کے لیے خزانے سے نکالنے والے پیسے!
وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ رانا تنویر حسین نے صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فوری طور پر عملی اقدامات کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ وزیر صاحب نے کہا کہ “یہ صورتحال اب برداشت سے باہر ہو رہی ہے، وقت آ گیا ہے کہ اسٹیک ہولڈرز ایک ساتھ آئیں اور فوری حل نکالیں۔”
اب یہاں پر خوشخبری بھی ہے! اپٹما کے چیئرمین کامران ارشد نے جنوری 2025 سے کاٹن سیس کی ادائیگی دوبارہ شروع کرنے کا وعدہ کیا ہے، جو کہ حکومت اور نجی شعبے کے درمیان بہتر تعاون کی امید کی کرن ہے۔
یہ بھی سنا ہے کہ وفاقی وزیر نے پی سی سی سی اور اپٹما کو زور دیا ہے کہ وہ فوری طور پر تحقیق اور ترقی پر توجہ دیں اور بقایا جات حل کریں تاکہ کپاس کے شعبے کو بحال کیا جا سکے۔ جی ہاں، اگر ہم کپاس کے شعبے کو دوبارہ کامیاب بنانا چاہتے ہیں، تو ایک جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے، ورنہ ہمیں پھر وہی “روئی والی حالت” ملے گی، جس سے ہماری معیشت مزید کمزور ہو جائے گی!
تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری، خاص طور پر بیج ٹیکنالوجی میں، نہایت ضروری ہے تاکہ کپاس کی پیداوار میں اضافہ کیا جا سکے۔ موسمیاتی چیلنجز سے نمٹنے کے لیے موسمیاتی اسمارٹ کپاس کی اقسام کی تیاری اور تقسیم کی ضرورت ہے تاکہ ہم آنے والے وقت میں اپنے کسانوں کو خوشحال دیکھ سکیں!
یہ سب کچھ تب ہی ممکن ہو گا جب ہم ایک متحد کوشش کریں اور اپنے کپاس کے شعبے کو دوبارہ جاندار بنائیں۔ اگر کپاس کی پیداوار 10 لاکھ گانٹھیں بڑھائیں، تو یہ نہ صرف ہمارے کسانوں کے لیے خوشخبری ہو گی، بلکہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کی خام مال کی ضروریات بھی پوری ہوں گی، اور برآمدات سے تقریباً 1 بلین ڈالر کا فائدہ بھی ہو گا۔
اب یہ سب کیسے ممکن ہو گا؟ جواب سادہ ہے: سب کو مل کر کام کرنا ہو گا، کپاس کی صنعت کی بہتری کے لیے فوری اور تبدیلی کی ضرورت ہے۔ ٹیکسٹائل انڈسٹری کا مستقبل کپاس کے شعبے کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اور اگر ہم نے وقت پر قدم نہ اٹھایا تو “روئی” کی قیمتوں میں اضافہ اور درآمدات پر انحصار ہمارا حال ہو گا۔
کپاس کے تجزیہ کار نسیم عثمان نے کہا کہ اس سیزن میں کپاس کی پیداوار 56 سے 57 لاکھ گانٹھوں کے درمیان رہنے کا امکان ہے، جب کہ درآمدات 50 سے 55 لاکھ گانٹھوں تک پہنچنے کی توقع ہے، اور ان میں سے 36 لاکھ گانٹھوں کے لیے معاہدے ہو چکے ہیں۔ اس سب کا مطلب ہے کہ "روئی والے، دھیان سے سنو، ہمت نہ ہارنا!”
مزید تفصیلات
پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کے تازہ ترین اعداد و شمار نے پاکستان کے کپاس کے شعبے کی تشویشناک حالت کو بے نقاب کیا ہے۔ 15 دسمبر 2024 تک کپاس کی پیداوار 5,367,334 گانٹھوں تک پہنچ گئی ہے، جو کہ 2023 میں پیدا ہونے والی 8,023,707 گانٹھوں کے مقابلے میں 33.11 فیصد کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ کمی پاکستان کے کپاس کے پہلے سے مشکلات کا شکار شعبے کے لیے ایک سنگین چیلنج ہے۔
پنجاب، جو کہ پاکستان کا سب سے بڑا کپاس پیدا کرنے والا صوبہ ہے، میں یہ کمی سب سے زیادہ دیکھنے کو ملی ہے۔ پنجاب میں 2023 میں پیدا ہونے والی کپاس 3,956,880 گانٹھوں سے کم ہو کر 2024 میں 2,593,949 گانٹھوں تک پہنچ گئی ہے، جو کہ 34.44 فیصد کی کمی کو ظاہر کرتی ہے۔ سندھ میں بھی کپاس کی پیداوار 31.80 فیصد کم ہوئی ہے، 4,066,827 گانٹھوں سے کم ہو کر 2,773,385 گانٹھوں تک پہنچ گئی ہے۔ بلوچستان میں تھوڑی کم سنگینی ہے، جہاں کپاس کی پیداوار 156,400 گانٹھوں تک پہنچی ہے۔
ماہرین، جن میں ساجد محمود، ہیڈ آف ٹرانسفر آف ٹیکنالوجی ڈیپارٹمنٹ، سینٹرل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ، ملتان شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ یہ اعداد و شمار پاکستان کے زرعی شعبے کی مشکلات کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان مشکلات میں موسمیاتی تبدیلی، پانی کی کمی، اور تحقیق و ترقی کے لیے ناکافی فنڈز شامل ہیں۔ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے موسم میں غیر معمولی تبدیلیاں آئی ہیں، اور بڑھتی ہوئی گرمی نے کپاس کے فصلوں کی پیداوار کو متاثر کیا ہے۔ اس کے علاوہ، پانی کی کمی نے بھی کپاس کی پیداوار کو بری طرح متاثر کیا ہے، کیونکہ کپاس کے لیے بڑی مقدار میں پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔
کپاس کی پیداوار میں اس کمی کے پاکستان کی معیشت پر گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ملک کی ٹیکسٹائل انڈسٹری، جو کہ مقامی طور پر پیدا ہونے والی کپاس پر منحصر ہے، کو اب بڑھتی ہوئی درآمدی کپاس پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ بڑھتا ہوا انحصار پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر پر بوجھ ڈال رہا ہے، اور اس سال کپاس کی درآمد پر تقریباً 2 ارب ڈالر خرچ ہونے کا امکان ہے، جس سے قومی خزانے پر مزید دباؤ پڑے گا۔
وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ، رانا تنویر حسین نے صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کپاس کی پیداوار بڑھانے کے لیے فوری اور عملی اقدامات ضروری ہیں۔ انہوں نے تمام اسٹیک ہولڈرز سے ٹھوس سفارشات طلب کی ہیں اور پاکستان سنٹرل کاٹن کمیٹی (پی سی سی سی) اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کے درمیان آٹھ سال سے جاری کاٹن سیس کے تنازعے کو جلد حل کرنے کی ہدایت کی ہے۔ وزیر نے پی سی سی سی کی تنظیم نو اور تحقیق و ترقی کے لیے اس کے نقطہ نظر کو جدید بنانے کی بھی درخواست کی ہے۔
حکومت نے کپاس کے شعبے کو بحال کرنے کے لیے ایک جامع حکمت عملی تیار کرنے کا ارادہ کیا ہے، جس میں پانی کی کمی کو حل کرنا، بیج کی کوالٹی کو بہتر بنانا، اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچنے کے لیے جدید بیج تیار کرنا شامل ہے۔ تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری، خاص طور پر بیج کی ٹیکنالوجی میں، اہم ہے تاکہ کپاس کے بیج تیار کیے جا سکیں جو کہ کیڑوں کے خلاف مزاحم ہوں، خاص طور پر وہ جو سفید مکھیوں اور گلابی کیڑے کے خلاف مزاحم ہوں۔
اگر یہ اقدامات کامیاب ہو جاتے ہیں، تو نہ صرف کپاس کی پیداوار میں اضافہ ہوگا بلکہ پاکستان کی معیشت کو بھی فائدہ پہنچے گا۔ اضافی 10 لاکھ گانٹھوں کی پیداوار سے تقریباً 10 لاکھ نئی ملازمتیں پیدا ہوں گی اور پاکستان کی برآمدات میں 1 ارب ڈالر کا اضافہ ہوگا۔ یہ ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے سستا خام مال فراہم کرے گا اور صنعتی ترقی کو فروغ دے گا۔
کپاس کے شعبے کو بحال کرنے کے لیے تمام اسٹیک ہولڈرز کو ایک ساتھ کام کرنا ہوگا، کیونکہ یہ صرف قومی معیشت کے لیے نہیں، بلکہ پاکستانی کسانوں کے لیے بھی ایک اہم موقع ہے۔
#UrduBusinessNews #CryptoNewsPakistan #LatestFinanceTrends #TechUpdatesPakistan #UrduCryptoNews #StockMarketUpdates #AIInPakistan #BlockchainNewsUrdu #PakistaniEconomyUpdates #InvestmentNewsUrdu