اسلام آباد: آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے جنوری 2025 سے کیپٹیو پاور پلانٹس (سی پی پیز) کی سپلائی منقطع کرنے کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے اسے وفاقی حکومت کے ساتھ مشاورت سے مشروط کرنے کا مشورہ دیا ہے۔
اوگرا نے منگل کے روز مالی سال 2024-25 کے لیے ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی ایل کی تخمینی آمدنی کی ضروریات (آر ای آر آر) کا تعین کیا۔ اوگرا آرڈیننس 2002 کے تحت، یہ فیصلہ 40 دن میں مکمل کرکے وفاقی حکومت کو پیش کیا جائے گا۔
ریگولیٹری اتھارٹی کا کہنا ہے کہ اگر حکومت جنوری 2025 سے سی پی پیز کی سپلائی منقطع کرنے کا فیصلہ کرتی ہے، تو دستیاب گیس کی ایڈجسٹمنٹ کے بعد آمدنی کی ضرورت 560,161 ملین روپے (1,746.22 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو) تک کم ہو جائے گی، جبکہ دستیاب گیس کا کشن 7,890 ملین روپے کم ہوگا۔
اس معاملے پر وزیر پیٹرولیم مصدق ملک اور سوئی گیس کمپنیوں (ایس این جی پی ایل اور ایس ایس جی سی ایل) کے منیجنگ ڈائریکٹرز کے ساتھ متعدد اجلاس منعقد کیے گئے، جن میں سی پی پیز کی منقطع ہونے کے اثرات پر تفصیلی تبادلہ خیال ہوا۔
بحث میں قومی گرڈ تک رسائی، مقامی گیس اور آر ایل این جی کی اضافی مقدار، اور مجموعی محصولات کی ضروریات پر اثر ڈالنے والے سیلز ریونیو میں ممکنہ کمی جیسے چیلنجز شامل تھے۔
اتھارٹی کا کہنا ہے کہ اگر سی پی پیز کی سپلائی منقطع کی گئی، تو درخواست گزار کو اضافی 12,807 mmcf RLNG کو سسٹم گیس صارفین کی طرف موڑنا پڑے گا، جس میں 5,836 mmcf RLNG کے پانچ کارگوز کا رول اوور بھی شامل ہوگا۔ مزید یہ کہ، اضافی RLNG کی وجہ سے جنوری سے جون 2025 کے دوران مقامی گیس کی سپلائی میں کمی کا امکان ہے۔
18 اکتوبر 2024 کو درخواست گزار نے ایک نظرثانی شدہ پٹیشن جمع کرائی، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ سی پی پیز کے منقطع ہونے کے بعد گیس کی اضافی مقدار گھریلو صارفین کو منتقل کی جا سکے گی۔
درخواست گزار نے بتایا کہ وفاقی حکومت سے سی پی پیز کے کنکشن منقطع کرنے کے لیے تحریری پالیسی دستیاب نہیں، صرف زبانی مشورے پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ اتھارٹی نے لاہور میں عوامی سماعت کے دوران مختلف صنعتوں اور مداخلت کاروں کی جانب سے جنوری 2025 سے سی پی پیز کی ممکنہ منقطع ہونے پر اٹھائے گئے تحفظات کو بھی نوٹ کیا۔
مزید تفصیلات
او جی ڈی سی اگلے ماہ سی پی پیز کی سپلائی منقطع کرنے پر غور کر رہا ہے: تفصیلات اور اثرات
او جی ڈی سی، پاکستان کی سب سے بڑی توانائی پیدا کرنے والی کمپنی، اگلے ماہ کیپٹیو پاور پلانٹس (سی پی پیز) کی سپلائی منقطع کرنے پر غور کر رہی ہے۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں کیا جا رہا ہے جب ملک میں گیس کی بڑھتی ہوئی طلب، مقامی وسائل کی کمی اور درآمدی ایل این جی کی قیمتوں میں اضافے جیسے مسائل سر اٹھا رہے ہیں۔
پس منظر اور وجوہات
کیپٹیو پاور پلانٹس انڈسٹریز کی اپنی بجلی پیدا کرنے کی مشینیں ہیں، جو زیادہ تر قدرتی گیس پر چلتی ہیں۔ تاہم، پاکستان میں گیس کے وسائل سکڑ رہے ہیں، اور عوامی دباؤ بڑھ رہا ہے کہ یہ گیس گھریلو صارفین اور اہم صنعتی شعبوں کے لیے مختص کی جائے۔
او جی ڈی سی کے اس ممکنہ فیصلے کا مقصد گیس کی ترسیل کو بہتر طریقے سے منظم کرنا ہے تاکہ اسے زیادہ ضروری سیکٹرز میں منتقل کیا جا سکے، جیسا کہ گھریلو اور برآمدی صنعتیں، جو معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتی ہیں۔
مسئلے کی جڑ: سی پی پیز پر تنقید
سی پی پیز پر اکثر تنقید کی جاتی ہے کہ یہ ملک کی سبسڈی والی گیس کا بڑا حصہ استعمال کرتے ہیں، جو گھریلو صارفین یا دیگر اہم صنعتوں کے لیے استعمال ہو سکتی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے ان پلانٹس نے گیس کے "چائے کے کپ” کو "کٹاکٹ” کے انداز میں چٹ کر لیا ہو۔
اگر یہ فیصلہ کیا جاتا ہے، تو اس سے آر ایل این جی (ری گیسفائیڈ لیکویفائیڈ نیچرل گیس) اور مقامی گیس کو قومی گرڈ میں منتقل کیا جا سکتا ہے، جس سے گیس کے نظام پر دباؤ کم ہو گا اور عوامی مسائل میں کمی آئے گی۔
صنعتی خدشات اور ہلچل
یہ اقدام انڈسٹری میں کھلبلی مچانے کے لیے کافی ہے۔ انڈسٹری مالکان اس ممکنہ فیصلے پر ایسے پریشان ہیں جیسے "پکوڑے کے بغیر چائے”۔ سی پی پیز پر انحصار کرنے والی صنعتیں، خاص طور پر ٹیکسٹائل، سیمنٹ، اور کھاد کے کارخانے، اس اقدام کے نتیجے میں پیداوار میں کمی، ملازمتوں کے نقصان، اور برآمدی آمدنی میں کمی کے خدشات ظاہر کر رہی ہیں۔
مزید یہ کہ، ان پلانٹس کو متبادل ذرائع سے بجلی لینا نہ صرف مہنگا ہے بلکہ اکثر ناقابل اعتماد بھی ہے، جس سے ان کی پریشانیاں مزید بڑھ جاتی ہیں۔
معاشی اثرات
گیس کی سپلائی کو دیگر سیکٹرز کی طرف منتقل کرنے سے مسائل کم ہو سکتے ہیں، لیکن معیشت پر اس کے ممکنہ منفی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ اگر انڈسٹریز کی پیداوار متاثر ہوتی ہے، تو برآمدی آمدنی میں کمی ہو سکتی ہے، جو پہلے ہی معیشت کی "دیگچی” میں ابال پیدا کر رہی ہے۔
ساتھ ہی، گیس کے ری ڈائریکٹ ہونے سے توانائی کی قیمتوں میں اضافے کا امکان ہے، جس سے عوام کی جیبوں پر مزید بوجھ پڑے گا۔ اس طرح کے فیصلے کے بعد اگر "گیس کا بل” کھولنے پر چائے کا کپ بھی ہاتھ سے چھوٹ جائے تو حیرت کی بات نہیں۔
آگے کا راستہ
او جی ڈی سی اور حکومت کو چاہیے کہ وہ اس فیصلے سے پہلے انڈسٹریز اور ریگولیٹری اداروں کے ساتھ مشاورت کرے۔ مرحلہ وار منصوبہ بندی، متبادل توانائی کے ذرائع کے لیے سبسڈی، یا صنعتوں کو قابل تجدید توانائی کے حل اپنانے کی ترغیب دینا، اس منتقلی کو آسان بنا سکتا ہے۔
خلاصہ
او جی ڈی سی کا سی پی پیز کی سپلائی منقطع کرنے پر غور کرنا ایک پیچیدہ مگر ممکنہ طور پر ضروری قدم ہے۔ اگرچہ اس سے گھریلو صارفین اور اہم سیکٹرز کے لیے گیس کی فراہمی بہتر ہو سکتی ہے، لیکن اس کے ساتھ معاشی اور سماجی چیلنجز بھی جڑے ہوئے ہیں۔ حکومت کے لیے اصل کمال یہ ہوگا کہ وہ وسائل کی تقسیم اور صنعتی پیداوار کے درمیان توازن قائم کرے تاکہ "پکوڑے بھی تل جائیں اور چائے بھی بچی رہے”۔
#UrduBusinessNews #CryptoNewsPakistan #LatestFinanceTrends #TechUpdatesPakistan #UrduCryptoNews #StockMarketUpdates #AIInPakistan #BlockchainNewsUrdu #PakistaniEconomyUpdates #InvestmentNewsUrdu