شمالی کوریا اور روس کے درمیان اقتصادی تعلقات کا نیا دور: معاہدہ یا بس دوستوں کی ٹریپ؟
سیئول، جنوبی کوریا (اے پی) – شمالی کوریا اور روس نے پیانگ یانگ میں اعلیٰ سطحی مذاکرات کے بعد ایک نیا معاہدہ کیا ہے، جس کا مقصد اقتصادی تعاون کو مزید بڑھانا ہے۔ یہ معاہدہ دونوں ممالک کے بڑھتے ہوئے تعلقات اور واشنگٹن کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے باوجود سامنے آیا ہے۔
شمالی کوریا کی سرکاری خبر ایجنسی KCNA نے بدھ کو اس معاہدے کی تفصیلات شیئر نہیں کیں، لیکن روس کے وزیر قدرتی وسائل و ماحولیات، الیگزینڈر کوزلوف کی قیادت میں ہونے والی اس ملاقات میں سیاحت کے فروغ کے لیے چارٹر پروازوں کی تعداد بڑھانے پر بات چیت کی گئی۔ تاس کی رپورٹ کے مطابق، روسی وفد نے پیانگ یانگ میں ہونے والی اس ملاقات میں دیگر اقتصادی امور پر بھی تبادلہ خیال کیا۔
کوزلوف، جو اتوار کو پیانگ یانگ پہنچے تھے، نے بدھ کو وطن واپس روانہ ہونے سے پہلے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن اور وزیرِ اعظم کم ٹوک ہن سے ملاقات کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے اپنے وفد کی قیادت کے دوران پیانگ یانگ کے مرکزی چڑیا گھر کو 70 سے زائد جانور تحفے میں دیے، جن میں شیر، ریچھ، اور دیگر پرندے شامل تھے۔ اب یہ جانور تو روس اور شمالی کوریا کے بڑھتے ہوئے تعلقات کی علامت ہیں، یا پھر شاید یہ کسی "جانوروں کی تجارت” کا آغاز ہو!
کم جونگ اُن نے حالیہ مہینوں میں روس کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کیا ہے تاکہ وہ بین الاقوامی سطح پر اپنی تنہائی سے نکل سکیں اور روس کے ساتھ مل کر مزید اثر و رسوخ حاصل کر سکیں۔ یوکرین کے خلاف پوٹن کی جنگ کی حمایت کرنے کے بعد شمالی کوریا نے خود کو واشنگٹن کے لیے ایک اہم اتحادی کے طور پر پیش کیا ہے۔
اب یہ نہ سمجھیں کہ کم جونگ اُن نے کہا کہ وہ روس کی جنگ میں مدد کر رہے ہیں، مگر جنوبی کوریا کی نیشنل انٹیلی جنس سروس کا کہنا ہے کہ اکتوبر کے آخر میں تقریباً 11,000 شمالی کوریا کے فوجی روس کے کرسک علاقے پہنچے تھے، جہاں روسی فوج نے یوکرین کے خلاف جنگ کے دوران کچھ علاقے حاصل کیے تھے۔ اب وہاں شمالی کوریا کے فوجی روس کے ساتھ مل کر "فرنٹ لائن” پر بھی لڑنا شروع ہو گئے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ جنوبی کوریا کے مطابق، شمالی کوریا کے فوجی روس کی سمندری اور فضائی افواج میں شامل ہو گئے ہیں۔
اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ اس معاہدے سے شمالی کوریا کو کیا فائدہ ہوگا؟ تو اندازہ لگائیں! تحقیق کے مطابق، شمالی کوریا کو روس سے 320 ملین سے 1.3 بلین ڈالر تک کا مالی فائدہ ہو رہا ہے، جو کہ روس کی فوجی ضروریات اور غیر ملکی کرائے کے فوجیوں کی بدلے حاصل ہو رہا ہے۔ یہ رقم شمالی کوریا کی معیشت کے لیے ایک بڑی مدد ہو سکتی ہے، اور شاید یہ رقم اس سے بھی زیادہ ہو، جو شمالی کوریا روس کو غیر قانونی کوئلے کی برآمدات یا فوجی سازوسامان کے بدلے حاصل کرتا ہے۔
جہاں تک واشنگٹن کے ساتھ جوہری مذاکرات کی بات ہے، وہ تو بس رک گئے ہیں۔ اور کم جونگ اُن نے جنوبی کوریا کو دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ اگر بات نہ بنی تو جوہری حملے کے لیے تیار رہنا! اس سب کے درمیان، شمالی کوریا روس سے جدید ٹیکنالوجیز حاصل کرنے پر زور دے رہا ہے تاکہ اپنے جوہری ہتھیاروں اور میزائل پروگرام کو مزید مضبوط کیا جا سکے۔
اب دیکھتے ہیں کہ یہ "دوستی” کہاں تک جاتی ہے، اور آیا شمالی کوریا کے جوہری منصوبوں کے لیے روس مزید تکنیکی مدد فراہم کرے گا؟ شاید اب روس اور شمالی کوریا کی یہ "دوستی” صرف سیاسی نہیں، بلکہ "تجارتی” بھی بن جائے!
مزید تفصیلات
شمالی کوریا اور روس نے حال ہی میں اپنے اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ایک اہم معاہدہ کیا ہے۔ یہ معاہدہ پیانگ یانگ میں نومبر 2024 میں ہونے والی اعلیٰ سطحی بات چیت کے دوران طے پایا، جہاں دونوں ممالک نے تجارت اور دیگر شعبوں میں تعاون بڑھانے پر اتفاق کیا۔ اس معاہدے کی تفصیلات ابھی مکمل طور پر سامنے نہیں آئیں، مگر اس کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان اقتصادی تعلقات کو مزید گہرا کرنا ہے، خاص طور پر اس وقت جب دونوں ممالک عالمی تنہائی کا شکار ہیں۔
اس معاہدے میں خاص طور پر سیاحت کو فروغ دینے پر زور دیا گیا ہے، اور اس کا پہلا قدم یہ ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان چارٹر پروازوں کی تعداد بڑھائی جائے۔ یہ اقدام دونوں ممالک کے عوامی سطح پر تعلقات کو بڑھانے میں مدد دے گا اور ممکنہ طور پر ان کی معیشتوں کو بھی مستحکم کرے گا۔ اس کے علاوہ، روس کے وزیر برائے قدرتی وسائل الیگزینڈر کوزلوف نے بھی پیانگ یانگ کا دورہ کیا، جہاں انہوں نے روسی حکومت کی طرف سے شمالی کوریا کو 70 سے زائد جانور تحفے میں دیے، جن میں شیر، ریچھ اور مختلف اقسام کے پرندے شامل ہیں۔ یہ ایک علامتی اقدام تھا جو دونوں ممالک کے بڑھتے ہوئے تعلقات کی نمائندگی کرتا ہے۔
گزشتہ چند مہینوں میں، کم جونگ ان نے روس کے ساتھ اپنے تعلقات کو ترجیح دی ہے، کیونکہ وہ عالمی سطح پر شمالی کوریا کی تنہائی کو کم کرنے اور اپنے قدم مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ روس کی یوکرین جنگ میں فعال حمایت کے ذریعے شمالی کوریا نے اپنے آپ کو واشنگٹن کے خلاف ایک مضبوط اتحادی کے طور پر پیش کیا ہے۔ اطلاعات کے مطابق، شمالی کوریا نے روس کو فوجی ساز و سامان اور دیگر فوجی مدد فراہم کی ہے، اور اس کے فوجی روس کے مختلف علاقوں میں تعینات کیے گئے ہیں تاکہ وہ روس کی یوکرین کے خلاف جنگ میں حصہ لیں۔
جنوبی کوریا کی انٹیلی جنس سروس کے مطابق، شمالی کوریا کے تقریباً 11,000 فوجی روس کے کرسک علاقے میں پہنچے ہیں، جہاں وہ یوکرین کے فوجیوں کے خلاف روسی افواج کے ساتھ مل کر لڑنے کے لیے تربیت حاصل کر رہے ہیں۔ ان فوجیوں کی تعداد اور ان کی تعیناتی سے واضح ہے کہ شمالی کوریا اور روس کے تعلقات صرف اقتصادی نہیں بلکہ فوجی میدان میں بھی گہرے ہو چکے ہیں【10†source】۔
یہ معاہدہ شمالی کوریا کے لیے ممکنہ طور پر 320 ملین سے 1.3 بلین ڈالر کی سالانہ آمدنی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ اگرچہ یہ رقم شمالی کوریا کے لیے اہم ہے، لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اصل مقصد اس رقم کا نہیں بلکہ روس سے جدید فوجی ٹیکنالوجی حاصل کرنا ہے تاکہ شمالی کوریا اپنے جوہری اور میزائل پروگرام کو مزید ترقی دے سکے۔ یہ بات سیول کے لیے ایک بڑی تشویش کا باعث ہے، کیونکہ اس سے شمالی کوریا کی فوجی طاقت میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے، جو کہ پورے خطے کی سلامتی کے لیے خطرہ ہو سکتا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ روس اور شمالی کوریا کے اس بڑھتے ہوئے تعلقات کا عالمی سطح پر کیا اثر پڑے گا؟ تو جواب یہ ہے کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے لیے نہ صرف اقتصادی بلکہ سیاسی اتحادی بن چکے ہیں۔ اس کا مقصد نہ صرف عالمی طاقتوں کے خلاف ایک مضبوط محاذ بنانا ہے بلکہ ایک دوسرے کی فوجی اور ٹیکنالوجی کی ضرورتوں کو بھی پورا کرنا ہے۔ اگرچہ یہ تعلقات دونوں ممالک کے لیے فائدہ مند ہو سکتے ہیں، لیکن اس سے عالمی سطح پر ایک نئی پیچیدگی پیدا ہو سکتی ہے، خاص طور پر امریکہ، جنوبی کوریا اور جاپان کے لیے، جو اس بڑھتی ہوئی عسکری اور اقتصادی تعاون کو ایک چیلنج کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
اور اگر بات کریں پاکستان کی، تو ہم بھی سوچتے ہیں کہ کہیں یہ تعلقات ہمیں بھی اثرانداز تو نہیں ہوں گے؟ لیکن پھر ہمیں یاد آتا ہے کہ ہمارا فوکس تو "چکن تکے” اور "چائے” پر زیادہ ہوتا ہے، ان عالمی تعلقات پر کم! پھر بھی، یہ تعلقات عالمی سیاست میں ایک نیا موڑ لے سکتے ہیں اور ہمیں اپنی سفارت کاری کے طریقوں پر دوبارہ غور کرنے کی ضرورت ہو سکتی ہے۔
آخرکار، روس اور شمالی کوریا کے تعلقات کا یہ نیا دور نہ صرف ان دونوں ممالک کے لیے بلکہ عالمی سطح پر بھی اہمیت رکھتا ہے، جس کا اثر عالمی اقتصادی اور سیکیورٹی صورتحال پر پڑے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ، اس سے خطے میں نئی تبدیلیاں اور چیلنجز بھی پیدا ہو سکتے ہیں۔