لاہور: پی آئی اے کی قسمت کا فیصلہ، نجکاری کی طرف نیا موڑ!
وفاقی وزیر نجکاری، عبدالعلیم خان، نے ایک پریس کانفرنس میں پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کو بغیر کسی مالی بوجھ کے نجی خریدار کو فروخت کرنے کا اشارہ دیا ہے۔ تو بھائی لوگو، پی آئی اے کی کہانی ایک نئے موڑ پر ہے، جہاں نہ صرف ایئر لائن کی قسمت کا فیصلہ ہوگا، بلکہ شاید کسی خریدار کو "صاف پی آئی اے” کے ساتھ کچھ نئے تجربات بھی ملیں گے!
کچھ حقیقتیں: خان نے بتایا کہ پی آئی اے کے 830 ارب روپے سے زائد کے قرضوں میں سے تقریباً 600 ارب روپے ایک ہولڈنگ کمپنی میں پڑے ہیں، اور باقی 200 ارب روپے خوش قسمتی سے نجی خریدار کے ہاتھ لگیں گے۔ تو، کیا آپ سوچ رہے ہیں کہ کوئی خریدار پی آئی اے کی سادگی کو اپنے ہاتھ میں لے کر اسے نئے افق تک پہنچا دے گا؟
پی آئی اے کی پہلی فروخت ناکام ہونے کے بعد، حکومت نے 200 ارب روپے کے واجبات ختم کرنے اور "صاف پی آئی اے” فروخت کرنے کا نیا منصوبہ بنایا ہے، جو شاید خریداروں کی دلچسپی کو بڑھا دے۔ مگر کیا آئی ایم ایف کے معاہدے کی وجہ سے حکومت نئے طیاروں کی خریداری پر جی ایس ٹی جیسی چیزیں ماننے کے لیے تیار ہے؟ یہ تو وقت ہی بتائے گا!
صوبائی حکومتوں کی دلچسپی: اب بات یہ ہے کہ صوبوں کو پی آئی اے خریدنے کی اجازت دی گئی ہے۔ کچھ صوبائی حکومتوں نے ایئر لائن کا کنٹرول سنبھالنے میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جیسے کہ خیبرپختونخوا، جس نے تو پہلے ہی اپنی خواہش ظاہر کر دی ہے۔ خان نے کہا کہ اگر پنجاب اور خیبرپختونخوا کی حکومتیں چاہیں، تو سندھ اور بلوچستان بھی پیچھے نہیں رہیں گے!
کیا آپ نے سنا؟ بلیو ورلڈ سٹی کنسورشیم نے پی آئی اے کی بولی میں ناکامی کے بعد اب دوسروں کو موقع فراہم کیا ہے۔ خان نے کہا کہ اگر صوبے ایئرلائن خریدنے میں سنجیدہ ہیں تو انہیں قانونی تقاضے پورے کرنا ہوں گے۔ اس پر تو کچھ لوگ ہنس پڑیں گے کہ شاید صوبے بھی اپنے حق کو چیک کرنے کے لیے پی آئی اے کی دکان پر جائیں!
آنے والی خوشخبری: خان نے پی آئی اے کو ایک "قومی اثاثہ” قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ کم قیمت پر نہیں بکے گا۔ اگر پی آئی اے کو نئے طیارے اور بہترین پیشہ ور افراد ملیں تو یہ ایک منافع بخش ادارہ بن سکتا ہے۔ کیا واقعی؟ بس دیکھتے جائیں!
اور آخر میں، خان نے یہ دعویٰ کیا کہ نیشنل ہائی وے اتھارٹی (این ایچ اے) اس سال پہلی بار 50 ارب روپے کا منافع ریکارڈ کرے گی، اور وہی نیک نیتی سے 3500 نئی ملازمتیں بھی ختم کر رہے ہیں، جس سے 2.8 ارب روپے کی بچت ہوئی ہے۔ تو، آو! پاکستان کی معیشت کے اس خوشگوار سفر کا حصہ بنیں اور دیکھیں کہ آیا پی آئی اے کی قسمت کی چابی کسی کو ملتی ہے یا نہیں!