کراچی: انسٹی ٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ مینجمنٹ اکاؤنٹنٹس آف پاکستان (آئی سی ایم اے) نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (ایس بی پی) کی مانیٹری پالیسی کمیٹی (ایم پی سی) کی جانب سے پالیسی ریٹ میں 200 بیسس پوائنٹس کمی کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیا، جس کے بعد پالیسی ریٹ 13 فیصد پر آ گیا جو دسمبر 17، 2024 سے لاگو ہوگا۔ یہ فیصلہ اُس وقت آیا ہے جب مہنگائی کی شرح 4.9% تک کم ہو چکی ہے اور عالمی اجناس کی قیمتوں میں نرمی آ چکی ہے، جس سے پاکستانی معیشت میں بہتری کی جھلک نظر آ رہی ہے۔
آئی سی ایم اے نے اس فیصلے کو ایک جرات مندانہ قدم اور اقتصادی بحالی کی جانب ایک بڑی پیشرفت سمجھا ہے۔ اس سے نہ صرف زراعت اور صنعت میں ترقی کی توقع ہے، بلکہ بیرونی شعبے میں استحکام اور مہنگائی کے انتظام میں بھی مدد ملے گی۔
چلیں، اس پالیسی ایڈجسٹمنٹ کی تفصیل میں ذرا چھان بین کریں:
- سی پی آئی: مہنگائی کی لہر تھم گئی ہے، خاص طور پر خوراک کی قیمتوں میں کمی اور عالمی اجناس کے خوشگوار رجحانات کے باعث۔ صارفین کے لیے یہ فوراً خوشخبری ہے کیونکہ ان کی جیب پر بوجھ کم ہوگا، لیکن پٹاخے کم نہیں ہوں گے!
- بنیادی افراط زر: کچھ جگہوں پر خوشخبری بھی ہے اور کچھ جگہوں پر "کام کر رہا ہے”۔ افراط زر کم تو ہوا ہے، مگر 9.7 فیصد تک اب بھی زیادہ ہے۔ جیسے ہم پاکستانیوں کو کہتے ہیں، "چائے کا بِل کم ہے، لیکن کھانے کا بِل زیادہ ہے!”
- SPI: ضروری اشیاء کی قیمتوں میں ہفتہ وار تبدیلیوں کا خیال رکھنا ضروری ہے تاکہ کم آمدنی والے گھرانوں کی مشکلات کم کی جا سکیں۔ اس کا مطلب ہے کہ حکومت کو ہدفی سبسڈیز فراہم کرنی ہوں گی تاکہ "خانے کا حساب کتاب” ٹھیک ہو۔
پاکستان کی معیشت میں بحالی کے بہت سے نشان ہیں، جیسے مسلسل تیسرے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس، مضبوط ترسیلات زر، 8.7 فیصد برآمدات میں اضافہ اور زرمبادلہ کے ذخائر کا 12 بلین ڈالر تک پہنچنا۔ بس اب ٹیکس کے اہداف کی تھوڑی سی اور محنت کی ضرورت ہے۔ ایف بی آر کو بھی 23 فیصد اضافے کے باوجود "چھوٹے بریک” کی ضرورت ہے!
آئی سی ایم اے کی جانب سے کچھ اہم پالیسی تجاویز:
- پالیسی کی شرح میں مزید کمی: 2025 تک پالیسی کی شرح کو 7-8 فیصد تک کم کرنا تاکہ کاروباری دنیا میں ایک "مستحکم فضا” بنے اور قرض کی لاگت کم ہو۔ اب یہ کام صرف ملک کی معیشت کے "سلے ہوئے ناشتہ” سے بچنے کے لیے نہیں، بلکہ سرمایہ کاروں کے لیے بھی ضروری ہے۔
- مانیٹری-فِسکل کوآرڈی نیشن: مالیاتی حکام کو باہم مل کر کام کرنا ہوگا تاکہ افراط زر پر قابو پایا جا سکے۔ جیسے کہتے ہیں، "دھنیے کی چھٹی کریں، سب کی "کمیٹی” مل کے کام کرے!”
- ساختی اصلاحات: توانائی کے اخراجات کم کرنا، سپلائی چین کی فیلڈ کو بہتر بنانا اور افراط زر کے دباؤ کو کم کرنا۔ یہ سب اُسی طرح ضروری ہیں جیسے کبھی کبھار ہمیں اپنے "ٹوٹے پھوٹے” گھریلو سامان کو ٹھیک کرنا پڑتا ہے!
- ٹارگٹڈ سبسڈیز: مہنگائی کے مارے کم آمدنی والے گھرانوں کے لیے سبسڈیز اور قیمتوں کی مؤثر نگرانی کرنا تاکہ "بیچاری جیب” بچی رہے۔
آئی سی ایم اے نے زور دیا ہے کہ ان اقدامات کو اسٹیٹ بینک کی پالیسی کے ساتھ ہم آہنگ کر کے پاکستانی معیشت کو مضبوط اور سرمایہ کاروں کے لیے سازگار بنایا جائے۔ جیسے کہتے ہیں، "اگر بلی بھی زیادہ چمک گئی تو ساموسے کی خوشبو بھی زیادہ اچھی لگے گی!”
اس طرح کے اقدامات سے پاکستانی معیشت میں سرمایہ کاری بڑھنے اور طویل مدتی اقتصادی استحکام میں مدد ملے گی، اور سب کو فائدہ ہوگا — اگر آپ کو سموسے اور چائے پسند ہو تو!
مزید تفصیلات
انسٹی ٹیوٹ آف کاسٹ اینڈ مینجمنٹ اکاؤنٹنٹس آف پاکستان (ICMA) نے اسٹیٹ بینک آف پاکستان (SBP) کے 200 بیسس پوائنٹس کی کمی کے فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، جس سے پالیسی ریٹ 13 فیصد پر پہنچ گیا ہے۔ یہ کمی 17 دسمبر 2024 سے نافذ ہوگی اور پاکستان کی اقتصادی بحالی کی سمت میں ایک اہم قدم سمجھی جا رہی ہے۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب پاکستان عالمی اقتصادی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے، لیکن مہنگائی میں کمی اور عالمی اجناس کی قیمتوں کے مستحکم ہونے کے ساتھ ملک میں بہتری کے آثار نظر آ رہے ہیں۔
SBP کا پالیسی ریٹ کم کرنے کا فیصلہ ایک حقیقت پسندانہ حکمت عملی کے طور پر سامنے آیا ہے، جو موجودہ اقتصادی حالات سے ہم آہنگ ہے۔ نومبر 2024 میں سالانہ افراط زر 4.9 فیصد ریکارڈ کی گئی ہے، اور خوراک کی قیمتوں میں نرمی اور عالمی اجناس کی سازگار حرکات کی بدولت مہنگائی میں کمی آ رہی ہے۔ اس وقت پالیسی ریٹ میں کمی کا مقصد صارفین، کاروباروں اور سرمایہ کاروں کو فوری ریلیف فراہم کرنا ہے، جو کہ ملک کی معیشت کی بحالی میں مدد دے گا۔
ICMA کا ماننا ہے کہ اس پالیسی ریٹ کی کمی سے زراعت اور صنعت کے شعبوں میں ترقی کی حوصلہ افزائی ہوگی، جو پاکستان کی معیشت کے لیے اہم ہیں۔ کم شرح سود کے ذریعے کاروباروں کو قرض لینے کی لاگت کم ہو جائے گی، جس سے خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کے لیے سرمایہ کاری کے مواقع بڑھیں گے۔ اس فیصلے سے خارجی شعبے میں استحکام بھی آ سکتا ہے، اور برآمدات کو عالمی منڈی میں مزید مسابقت ملے گی۔
اس کے ساتھ ہی ICMA نے اس بات کی طرف بھی اشارہ کیا ہے کہ مہنگائی کے انتظام میں بھی یہ پالیسی ریٹ کمی مددگار ثابت ہو سکتی ہے، خاص طور پر جب پیداوار کی قیمتوں میں اضافہ اور سپلائی چین کے مسائل موجود ہیں۔ SBP کی جانب سے مہنگائی کے اہم اشاریوں جیسے کنزیومر پرائس انڈیکس (CPI) اور حساس قیمت انڈیکس (SPI) کو مانیٹر کیا جا رہا ہے، تاکہ پالیسی ساز اس بات کو یقینی بنا سکیں کہ مختصر مدت کے امدادی اقدامات کو طویل مدت کے استحکام کے ساتھ ہم آہنگ کیا جائے۔
ICMA نے اس بات پر بھی زور دیا ہے کہ بنیادی افراط زر اب بھی 9.7 فیصد پر بلند ہے، جو کہ ساختی چیلنجوں جیسے پیداواری لاگت اور سپلائی چین کے مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔ اس کے لیے اسٹریٹجک اور طویل مدتی پالیسی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ مزید یہ کہ، ICMA نے تجویز کیا ہے کہ پالیسی ریٹ کو 2025 کے وسط تک بتدریج 7-8 فیصد تک کم کیا جائے تاکہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو اور قرض لینے کی لاگت کم ہو سکے۔
ICMA کی تجویز کردہ دیگر پالیسی اقدامات میں مالیاتی اور مالی حکام کے درمیان بہتر ہم آہنگی شامل ہے تاکہ شرح مبادلہ کو مستحکم کیا جا سکے اور مہنگائی کو بہتر طریقے سے منظم کیا جا سکے۔ اس کے علاوہ، توانائی کے اخراجات کو کم کرنے، سپلائی چین کو ہموار کرنے اور افراط زر کے مسلسل دباؤ سے نمٹنے کے لیے ساختی اصلاحات کی ضرورت ہے۔
آخری طور پر، ICMA کا کہنا ہے کہ اس پالیسی ریٹ کی کمی پاکستان کی معیشت کے استحکام اور ترقی کے لیے ایک اچھا آغاز ہے، مگر طویل مدتی معاشی بحالی کے لیے ساختی اصلاحات ضروری ہیں۔ یہ اصلاحات نہ صرف کاروباری اعتماد کو بڑھائیں گی بلکہ سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی اور طویل مدتی اقتصادی لچک کو فروغ دیں گی۔ تو، لگتا ہے کہ پاکستانی معیشت نے جتنی مشکلات جھیلیں، اب وہ ایک نئے راستے پر گامزن ہے!
#UrduBusinessNews #CryptoNewsPakistan #LatestFinanceTrends #TechUpdatesPakistan #UrduCryptoNews #StockMarketUpdates #AIInPakistan #BlockchainNewsUrdu #PakistaniEconomyUpdates #InvestmentNewsUrdu