حال ہی میں منعقد ہونے والی BRICS BRICSکانفرنس نے عالمی سطح پر کافی توجہ حاصل کی ہے۔ اس کانفرنس میں نہ صرف نئے ممبر ممالک شامل کرنے کا اعلان کیا گیا بلکہ ایک متبادل مالیاتی نظام کے قیام کا بھی منصوبہ پیش کیا گیا۔ BRICS بلاک کی بڑھتی ہوئی طاقت اور اس کی عالمی مالیاتی نظام کو دوبارہ تشکیل دینے کی خواہش نے امریکی ڈالر کی عالمی فوقیت کو چیلنج کر دیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ اقدامات کامیاب ہوں گے اور ان کا بین الاقوامی مارکیٹ پر کیا اثر پڑے گا؟
2023 کی BRICS کانفرنس
یہ کانفرنس 2023 میں منعقد ہوئی تھی۔ اس کانفرنس میں سعودی عرب، ایران، ایتھوپیا، مصر، اور ارجنٹینا کو BRICS بلاک میں شامل کرنے کا اعلان کیا گیا۔ یہ نئے ممبر ممالک BRICS بلاک کی عالمی سطح پر سیاسی اور اقتصادی اثر و رسوخ کو مزید بڑھائیں گے۔
BRICS Pay اور امریکی ڈالر کی چیلنج
BRICS بلاک نے BRICS Pay نامی ایک متبادل ادائیگی نظام شروع کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ اس نظام کا مقصد امریکی ڈالر پر انحصار کو کم کرنا اور بین الاقوامی تجارت میں ایک نئے مالیاتی نظام کو متعارف کرانا ہے۔ اگر BRICS Pay کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے عالمی مالیاتی نظام میں بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔
BRICS بلاک کے یہ اقدامات عالمی معیشت اور سیاست کو متاثر کر سکتے ہیں۔ اگرچہ یہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہیں لیکن ان کے ممکنہ نتائج کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان اقدامات کی کامیابی یا ناکامی عالمی سطح پر مالیاتی اور سیاسی توازن کو تبدیل کر سکتی ہے۔
BRICS: عالمی سیاست کا ایک نیا طلوع
BRICS، ایک ایسا اتحاد جو عالمی سیاست کا نقشہ بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس اتحاد کا قیام عالمی معیشت اور سیاست کے بڑھتے ہوئے تغیر کا نتیجہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد برٹن ووڈز کانفرنس نے عالمی مالیاتی نظام کی بنیاد رکھی، جس میں امریکی ڈالر کو عالمی کرنسی کا درجہ دیا گیا۔ تاہم، کاغذی کرنسی کے دور میں دنیا کے کئی ممالک نے اس نظام میں اپنا کردار ادا کرنے کی خواہش ظاہر کی۔
BRICS بلاک اسی پس منظر میں تشکیل پایا۔ اس اتحاد میں شامل ممالک – برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ – عالمی آبادی، وسائل اور جی ڈی پی کا ایک قابل ذکر حصہ رکھتے ہیں۔ ان کی مجموعی اقتصادی طاقت جی 7 ممالک کے مقابلے میں نمایاں طور پر بڑھ رہی ہے۔
BRICS کا مقصد صرف اقتصادی تعاون تک محدود نہیں ہے۔ یہ بلاک عالمی سیاست میں ایک متوازن اور متعدد قطبی نظام قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ اتحاد عالمی مالیاتی اداروں میں اصلاحات کا مطالبہ کرتا ہے اور متبادل مالیاتی نظاموں کی تشکیل پر بھی کام کر رہا ہے۔ BRICS کا بڑھتا ہوا اثر عالمی سیاست اور معیشت کو متاثر کر رہا ہے اور مستقبل میں اس بلاک کا کردار مزید اہمیت اختیار کر سکتا ہے۔
BRICS کا مستقبل
BRICS کا مستقبل روشن نظر آتا ہے۔ اس اتحاد کے پاس عالمی سطح پر اثر و رسوخ بڑھانے کی صلاحیت موجود ہے۔ اگر BRICS ممالک اپنے اندرونی مسائل کا حل تلاش کر لیتے ہیں اور اپنے اقتصادی تعاون کو مزید مضبوط بناتے ہیں تو وہ عالمی سیاست میں ایک طاقتور بلاک بن سکتے ہیں۔
BRICS اور پاکستان
پاکستان کے لیے BRICS ایک اہم موقع فراہم کرتا ہے۔ پاکستان BRICS بلاک میں شامل ہو کر اپنی اقتصادی ترقی کو تیز کر سکتا ہے اور عالمی منظر نامے پر اپنا کردار ادا کر سکتا ہے
BRICS Pay: عالمی مالیاتی نظام میں ایک نیا دور
BRICS Pay ایک ایسا متبادل ادائیگی نظام ہے جس کا مقصد امریکی ڈالر اور مغربی مالیاتی نظام کو بائی پاس کرنا ہے۔ یہ نظام QR کوڈ پر مبنی ٹرانزیکشنز اور ڈی سنٹرلائزڈ انفرااسٹرکچر کا استعمال کرتا ہے۔ اس کا حتمی مقصد سینٹرل بینک ڈیجیٹل کرنسیز (CBDCs) کو ضم کرنا ہے تاکہ بین الاقوامی ٹرانزیکشنز کو مزید آسان اور تیز کیا جا سکے۔
BRICS Pay کا پس منظر
BRICS Pay سوئٹزرلینڈ کے Project mBridge سے متاثر ہے۔ یہ منصوبہ بھی بین الاقوامی ادائیگیوں کو تیز اور سستا بنانے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ BRICS Pay اسی اصول پر کام کرتا ہے اور اس کا مقصد BRICS ممالک کے درمیان تجارت کو آسان بنانا اور امریکی ڈالر کی حکمرانی کو چیلنج کرنا ہے۔
BRICS Pay کے ممکنہ اثرات
BRICS Pay کے کامیاب ہونے سے عالمی مالیاتی نظام میں بڑی تبدیلی آ سکتی ہے۔ یہ نظام بین الاقوامی تجارت کو تیز اور سستا بنا سکتا ہے اور ترقی پذیر ممالک کو مغربی مالیاتی نظام کی پابندیوں سے آزاد کر سکتا ہے۔ اگر BRICS Pay کامیاب ہو جاتا ہے تو اس سے عالمی مالیاتی نظام میں ایک متوازن اور متعدد قطبی نظام قائم ہو سکتا ہے۔
BRICS Pay کے چیلنجز
تاہم، BRICS Pay کے سامنے کئی چیلنجز بھی موجود ہیں۔ ان میں ٹیکنالوجیکل انفرااسٹرکچر، بین الاقوامی تعاون اور سیاسی عوامل شامل ہیں۔ اگر BRICS ممالک ان چیلنجز کو کامیابی سے پار کر لیتے ہیں تو BRICS Pay عالمی مالیاتی نظام کا ایک اہم جز بن سکتا ہے۔
BRICS کا وسیع ہوتا ہوا اثر: نئے ممبر ممالک کا اضافہ
BRICS بلاک نے حال ہی میں اپنے دائرے کو وسیع کرتے ہوئے مصر، ایتھوپیا، ایران اور متحدہ عرب امارات کو اپنے اندر شامل کر لیا ہے۔ یہ ایک ایسا قدم ہے جس نے BRICS کے جغرافیائی اور اقتصادی اثر و رسوخ کو نمایاں طور پر بڑھا دیا ہے۔
نئے ممبر ممالک کی اہمیت
مصر: مصر افریقہ میں ایک کلیدی ملک ہے۔ اس کا شامل ہونا BRICS کے افریقہ میں اثر و رسوخ کو مضبوط بنائے گا۔ مصر کے پاس قدرتی وسائل اور ایک بڑی آبادی ہے جو اسے BRICS بلاک کے لیے ایک قیمتی اثاثہ بناتی ہے۔
ایتھوپیا: ایتھوپیا افریقہ کا ایک تیزی سے ترقی کرنے والا ملک ہے۔ اس کے پاس زرعی اور معدنی وسائل ہیں جو BRICS بلاک کی اقتصادی طاقت کو بڑھا سکتے ہیں۔
ایران: ایران کے پاس وسیع توانائی کے ذخائر اور ایک بڑی مارکیٹ ہے۔ اس کا شامل ہونا BRICS بلاک کو وسط مشرق میں ایک مضبوط کردار دے گا۔
متحدہ عرب امارات: متحدہ عرب امارات ایک امیر اور متحرک معیشت رکھتا ہے۔ اس کا شامل ہونا BRICS بلاک کو مالیاتی اور تکنیکی لحاظ سے مضبوط بنائے گا۔
BRICS کا بڑھتا ہوا اثر
نئے ممبر ممالک کے اضافے سے BRICS بلاک کا عالمی سطح پر اثر و رسوخ بڑھے گا۔ یہ بلاک افریقہ، وسط مشرق اور ایشیا میں اپنی موجودگی کو مضبوط کرے گا اور مغربی دنیا کو ایک چیلنج پیش کرے گا۔ BRICS بلاک کا مقصد عالمی مالیاتی نظام میں ایک متوازن اور متعدد قطبی نظام قائم کرنا ہے۔
سیاسی پیغام
BRICS بلاک کے وسیع ہونے کا مغربی دنیا کے لیے ایک واضح سیاسی پیغام ہے۔ یہ پیغام یہ ہے کہ عالمی سیاست اور معیشت میں ایک نیا توازن ابھر رہا ہے۔ BRICS بلاک مغربی دنیا کے مالیاتی اور سیاسی نظام کو چیلنج کر رہا ہے اور ایک متبادل نظام کی تعمیر کر رہا ہے۔
ڈالر کی بالادستی کو خطرہ: ڈی-ڈالرائزیشن کی حکمت عملی کا تجزیہ
امریکی ڈالر کی عالمی ریزرو کرنسی کی حیثیت پر ممکنہ اثرات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ "ڈی-ڈالرائزیشن” کا تصور امریکی معیشت اور عالمی تجارت کے لیے اہم کیوں ہے، اور برکس (BRICS) ممالک کی ڈالر پر انحصار کم کرنے کی منصوبہ بندی کی قابلیت کے حق اور خلاف میں دلائل پیش کرنا چاہیے۔
ڈالر کی بالادستی نے تاریخی طور پر امریکی معیشت کو کئی طرح سے فائدہ پہنچایا ہے۔ اس نے امریکہ کو سستے قرض لینے، عالمی مالیاتی نظام پر اثر انداز ہونے، اور اپنی مالیاتی پالیسیوں کو عالمی سطح پر نافذ کرنے کی صلاحیت دی ہے1۔ یہ برتری امریکہ کو معاشی طاقت اور سیاسی نفوذ دیتی ہے۔
برکس ممالک ڈالر سے آزادی کیوں چاہتے ہیں؟ وہ امریکی پابندیوں سے بچنا، اپنی کرنسیوں کو مضبوط کرنا، اور عالمی معاشی نظام میں زیادہ متوازن کردار چاہتے ہیں2۔ چین اور روس خاص طور پر ڈالر کے متبادل تلاش کر رہے ہیں۔
تاہم، ڈالر پر انحصار کم کرنے میں برکس کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔ موجودہ تجارتی انحصار، ڈالر کی گہری مارکیٹ، اور متبادل کرنسیوں کی محدود قبولیت اہم رکاوٹیں ہیں3۔ مکمل ڈی-ڈالرائزیشن ایک طویل اور پیچیدہ عمل ہو سکتا ہے۔
ڈی-ڈالرائزیشن کے اثرات گہرے ہو سکتے ہیں۔ امریکہ کے لیے، یہ بڑھتی ہوئی قرض کی لاگت اور کم عالمی اثر و رسوخ کا باعث بن سکتا ہے۔ دوسری طرف، یہ عالمی معاشی نظام کو زیادہ متنوع اور مزاحم بنا سکتا ہے1۔
اگرچہ مکمل ڈی-ڈالرائزیشن فوری طور پر ممکن نہیں لگتی، لیکن یہ رجحان بڑھ رہا ہے۔ کاروباری اداروں اور پالیسی سازوں کو اس تبدیلی کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ متعدد کرنسیوں میں سرمایہ کاری اور نئے ادائیگی کے نظاموں کی تیاری اہم حکمت عملیاں ہو سکتی ہیں4۔
خلاصہ یہ کہ ڈی-ڈالرائزیشن ایک پیچیدہ اور طویل مدتی عمل ہے جو عالمی معاشی منظرنامے کو تبدیل کر سکتا ہے۔ اس کے اثرات کو سمجھنا اور اس کے لیے تیار رہنا ضروری ہے
NDB: BRICS کا متبادل مالیاتی ادارہ
BRICS بلاک نے عالمی مالیاتی نظام میں ایک نیا متبادل پیش کیا ہے: نیو ڈویلپمنٹ بینک (NDB)۔ یہ بینک روایتی مالیاتی اداروں جیسے عالمی بینک اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) سے مختلف ہے۔ NDB کا مقصد ترقی پذیر ممالک کو قرضے فراہم کرنا ہے بغیر ان پر سخت شرائط عائد کیے جو عام طور پر IMF کی جانب سے لگائی جاتی ہیں۔
NDB کا منفرد نقطہ نظر
NDB کا منفرد نقطہ نظر یہ ہے کہ وہ مقامی کرنسیوں میں قرضے فراہم کرتا ہے۔ اس سے کرنسی کے تبادلے کے خطرات کم ہو جاتے ہیں اور قرض لینے والے ممالک کو اپنے مالیاتی نظام پر زیادہ کنٹرول حاصل ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ، NDB کی شرائط عام طور پر IMF کی شرائط سے نرم ہوتی ہیں۔ NDB قرض لینے والے ممالک کو اپنی اقتصادی پالیسیوں کو آزادانہ طور پر تشکیل دینے کی اجازت دیتا ہے۔
NDB کے ممکنہ فوائد
NDB کے قیام سے ترقی پذیر ممالک کو کئی فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔ سب سے اہم فائدہ یہ ہے کہ وہ قرضے حاصل کر سکتے ہیں بغیر سخت شرائط کے جن سے ان کی اقتصادی ترقی متاثر ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ، NDB مقامی کرنسیوں میں قرضے فراہم کرتا ہے جس سے کرنسی کے تبادلے کے خطرات کم ہو جاتے ہیں۔
NDB اور عالمی مالیاتی نظام
NDB کا قیام عالمی مالیاتی نظام میں ایک نیا توازن پیدا کر سکتا ہے۔ یہ بینک ترقی پذیر ممالک کو ایک متبادل فراہم کرتا ہے اور مغربی مالیاتی اداروں کی حکمرانی کو چیلنج کرتا ہے۔ اگر NDB کامیاب ہوتا ہے تو یہ عالمی مالیاتی نظام میں ایک اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔
BRICS کا عالمی معیشت اور سرمایہ کاری پر اثر
BRICS بلاک کے بڑھتے ہوئے اثر کا عالمی معیشت اور سرمایہ کاری کے رجحانات پر نمایاں اثر پڑ رہا ہے۔ اس کے ممکنہ اثرات میں تجارتی راستوں میں تبدیلی، کرنسیوں کی قدر میں اتار چڑھاؤ، اور سرمایہ کاری کے رجحانات میں تبدیلی شامل ہیں۔
کوموڈٹیز اور کرنسی مارکیٹس پر اثر
BRICS ممالک کئی اہم کوموڈٹیز کے بڑے صارفین اور پیدا کرنے والے ہیں۔ اس لیے ان کے اقتصادی سرگرمیوں میں تبدیلی کا عالمی سطح پر کوموڈٹیز کی مانگ اور رسد پر اثر پڑ سکتا ہے۔ اس کے نتیجے میں کوموڈٹیز کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
کرنسی مارکیٹس پر بھی BRICS کا اثر پڑ سکتا ہے۔ اگر BRICS ممالک اپنی کرنسیوں کو عالمی سطح پر استعمال کرنے کو فروغ دیتے ہیں تو اس سے عالمی کرنسی نظام میں تبدیلی آ سکتی ہے۔ اس سے ڈالر کی حکمرانی کمزور ہو سکتی ہے اور دیگر کرنسیوں کی قدر میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
سرمایہ کاری کے رجحانات پر اثر
BRICS کے بڑھتے ہوئے اثر کا سرمایہ کاری کے رجحانات پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔ سرمایہ کار BRICS ممالک میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کر سکتے ہیں۔ اس سے ان ممالک کی اسٹاک مارکیٹس اور املاک کی مارکیٹس میں سرمایہ کاری بڑھ سکتی ہے۔
ماہرین کی رائے
مالیاتی ماہرین کا خیال ہے کہ سرمایہ کاروں کو BRICS کے بڑھتے ہوئے اثر کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے پورٹ فولیوز میں تبدیلیاں کرنی چاہییں۔ ان کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاروں کو BRICS ممالک کی اسٹاک مارکیٹس، املاک اور کوموڈٹیز میں سرمایہ کاری کے مواقع تلاش کرنے چاہییں۔ اس کے علاوہ، سرمایہ کاروں کو کرنسی کے تبادلے کے خطرات کو کم کرنے کے لیے ہッジنگ کی حکمت عملیوں کا استعمال کرنا چاہیے۔
برکس کے سامنے چیلنجز اور غیر یقینی صورتحال
برکس (BRICS) گروپ کو متعدد چیلنجز اور غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے جو اس کی مستقبل کی کامیابی کو متاثر کر سکتے ہیں۔ ان چیلنجز کا تفصیلی جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ اس اتحاد کی حقیقی صلاحیت کو سمجھا جا سکے۔
اندرونی اختلافات
برکس ممالک کے درمیان اندرونی اختلافات ایک بڑا مسئلہ ہیں۔ ہر ملک کے اپنے مقاصد اور ترجیحات ہیں جو اکثر ایک دوسرے سے ٹکراتے ہیں۔ مثال کے طور پر:
- چین اور بھارت کی دشمنی: یہ دونوں ملک سرحدی تنازعات اور علاقائی برتری کے لیے مسلسل کشمکش میں ہیں۔
- روس کی الگ تھلگ پوزیشن: یوکرین جنگ کے بعد روس کی بین الاقوامی سطح پر تنہائی نے اسے برکس پر زیادہ انحصار کرنے پر مجبور کیا ہے۔
- برازیل اور جنوبی افریقہ کی معاشی مشکلات: ان ممالک کی داخلی معاشی پریشانیاں انہیں برکس کے مشترکہ مقاصد پر توجہ دینے سے روکتی ہیں۔
یہ اختلافات مشترکہ پالیسیوں پر اتفاق رائے قائم کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
معاشی عدم مساوات
برکس ممالک کے درمیان معاشی عدم مساوات بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔ چین کی معیشت دیگر ممالک سے کہیں بڑی ہے، جو گروپ کے اندر طاقت کے عدم توازن کا باعث بنتی ہے۔ یہ عدم مساوات درج ذیل طریقوں سے ظاہر ہوتی ہے:
- تجارتی عدم توازن: چین کا دیگر برکس ممالک کے ساتھ تجارتی فائدہ۔
- سرمایہ کاری کی صلاحیت: چین کی وسیع سرمایہ کاری صلاحیت دیگر ممالک کے مقابلے میں نمایاں ہے۔
- ٹیکنالوجی کی ترقی: چین کی جدید ٹیکنالوجی میں پیش قدمی دیگر ممالک سے آگے ہے۔
یہ عدم مساوات مشترکہ معاشی پالیسیوں پر اتفاق رائے قائم کرنے میں رکاوٹ بنتی ہے۔
برکس پے (BRICS Pay) کے نفاذ میں مشکلات
برکس پے، جو ڈالر پر انحصار کم کرنے کی ایک کوشش ہے، کو متعدد تکنیکی اور قانونی چیلنجز کا سامنا ہے:
- ٹیکنالوجی کی ہم آہنگی: مختلف ممالک کے ادائیگی نظاموں کو ایک دوسرے سے جوڑنا ایک پیچیدہ عمل ہے۔
- قانونی ڈھانچہ: ہر ملک کے اپنے مالیاتی قوانین ہیں جن کو ہم آہنگ کرنا مشکل ہے۔
- سائبر سیکیورٹی: بین الاقوامی لین دین کی حفاظت ایک بڑا چیلنج ہے۔
ان مشکلات کی وجہ سے برکس پے کا وسیع پیمانے پر نفاذ ایک پیچیدہ اور وقت طلب عمل ہو سکتا ہے۔
مغربی پابندیاں اور سیاسی رکاوٹیں
مغربی ممالک، خاص طور پر امریکہ، برکس کی کوششوں کو شک کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں:
- معاشی پابندیاں: روس پر لگائی گئی پابندیاں برکس کی مشترکہ کوششوں کو متاثر کرتی ہیں۔
- سیاسی دباؤ: مغربی ممالک دیگر برکس ممالک پر روس اور چین سے دوری اختیار کرنے کا دباؤ ڈالتے ہیں۔
- ٹیکنالوجی تک رسائی: مغربی ٹیکنالوجی تک محدود رسائی برکس کی ترقی کو متاثر کر سکتی ہے۔
یہ عوامل برکس کی مغربی مالیاتی نظام کے متبادل بننے کی کوششوں میں رکاوٹ بن سکتے ہیں۔
نتیجہ
برکس کے سامنے موجود چیلنجز اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس گروپ کو مغربی مالیاتی نظام کا مکمل متبادل بننے میں ابھی طویل راہ طے کرنا ہے۔ تاہم، ان چیلنجز کے باوجود، برکس کی کوششیں عالمی معاشی نظام میں اہم تبدیلیوں کا باعث بن سکتی ہیں۔ مستقبل میں برکس کی کامیابی اس بات پر منحصر ہوگی کہ وہ اپنے اندرونی اختلافات کو کس حد تک حل کر پاتا ہے اور مشترکہ مفادات پر کتنی مؤثر طریقے سے کام کر سکتا ہے
نتیجہ: عالمی مالیاتی نظام کا مستقبل کیا ہے؟
برکس (BRICS) کی کثیر قطبی مالیاتی دنیا بنانے کی صلاحیت کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اگرچہ برکس اتحاد کے منصوبے بلند و بالا ہیں، لیکن مستقبل ابھی بھی غیر یقینی ہے۔ آئیے عالمی مالیاتی نظام پر طویل مدتی اثرات اور بدلتے ہوئے معاشی منظر نامے میں ڈھلنے کی اہمیت پر غور کریں۔
برکس کا مستقبل کا تصور
برکس کا مقصد ایک ایسا عالمی مالیاتی نظام تشکیل دینا ہے جو مغربی طاقتوں، خاص طور پر امریکہ، کے اثر و رسوخ سے آزاد ہو۔ اس تصور کے اہم نکات یہ ہیں:
ڈی-ڈالرائزیشن: برکس ممالک ڈالر پر انحصار کم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ اپنی مقامی کرنسیوں میں تجارت کو فروغ دے رہے ہیں اور ایک مشترکہ کرنسی کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
نئے مالیاتی ادارے: برکس نے نیو ڈویلپمنٹ بینک (NDB) اور کنٹنجنٹ ریزرو ارینجمنٹ (CRA) جیسے ادارے قائم کیے ہیں جو عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے متبادل کے طور پر کام کر سکتے ہیں۔
جنوب-جنوب تعاون: برکس ترقی پذیر ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دینا چاہتا ہے تاکہ مغربی ممالک پر انحصار کم کیا جا سکے۔
عالمی مالیاتی رجحانات کی نگرانی کی اہمیت
موجودہ عالمی معاشی منظر نامے میں تیزی سے تبدیلیاں آ رہی ہیں۔ ان تبدیلیوں کو سمجھنا اور ان کے مطابق حکمت عملی بنانا ضروری ہے:
ٹیکنالوجی کی ترقی: ڈیجیٹل کرنسیاں اور بلاکچین ٹیکنالوجی مالیاتی نظام کو بدل رہی ہیں۔
ماحولیاتی تبدیلی: سبز معیشت کی طرف منتقلی سے مالیاتی نظام متاثر ہو رہا ہے۔
جیوپولیٹیکل تناؤ: بڑھتے ہوئے عالمی تناؤ مالیاتی نظام کو متاثر کر رہے ہیں۔
ان رجحانات کی مسلسل نگرانی اور تجزیہ ضروری ہے تاکہ آنے والی تبدیلیوں کے لیے تیار رہا جا سکے۔
کثیر قطبی عالمی معیشت کا امکان
برکس کی کوششوں کے نتیجے میں ایک نئی، کثیر قطبی عالمی معیشت کا ظہور ممکن ہے۔ اس کے ممکنہ نتائج یہ ہو سکتے ہیں:
متنوع مالیاتی مراکز: نیویارک اور لندن کے علاوہ شنگھائی، ممبئی، اور ساؤ پاؤلو جیسے شہر بھی اہم مالیاتی مراکز بن سکتے ہیں۔
متعدد ریزرو کرنسیاں: ڈالر کے ساتھ ساتھ یوآن، روپیہ، اور دیگر کرنسیاں بھی عالمی ریزرو کرنسی کا کردار ادا کر سکتی ہیں۔
نئے تجارتی راستے: "بیلٹ اینڈ روڈ” جیسے منصوبے نئے تجارتی راستے بنا سکتے ہیں جو مغربی ممالک پر انحصار کم کریں گے۔
آخری خیالات
برکس کی کوششیں عالمی مالیاتی نظام میں ایک نئے دور کا آغاز کر سکتی ہیں۔ تاہم، یہ عمل آسان نہیں ہوگا اور اس میں کئی چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا برکس اپنے اندرونی اختلافات پر قابو پا کر ایک متحد محاذ بنا سکے گا؟ کیا مغربی ممالک اس تبدیلی کو قبول کریں گے یا اس کی مزاحمت کریں گے؟
مستقبل میں کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ تمام ممالک، چاہے وہ برکس کا حصہ ہوں یا نہ ہوں، بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے کے مطابق اپنے آپ کو ڈھالیں۔ لچک، جدت، اور باہمی تعاون وہ خصوصیات ہیں جو آنے والے دنوں میں اہم کردار ادا کریں گی۔
آخر میں، ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ عالمی مالیاتی نظام کی تشکیل نو صرف معاشی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک اہم جیوپولیٹیکل چیلنج بھی ہے۔ اس تبدیلی کا انتظام کس طرح کیا جاتا ہے، یہ آنے والی نسلوں کے لیے عالمی امن، خوشحالی، اور پائیدار ترقی کو متاثر کرے گا