عنوان: "کیا امریکہ دنیا کو ماحولیاتی بحران کے گہرے سمندر میں دھکیل رہا ہے؟ ایک تجزیاتی اور طنزیہ جائزہ”
امریکہ، جو دنیا کی سب سے بڑی معیشت اور سب سے زیادہ کاربن خارج کرنے والا ملک ہے، اکثر اپنے ماحولیاتی اہداف اور بین الاقوامی وعدوں کی وجہ سے زیر بحث رہتا ہے۔ کیا امریکہ دنیا کی ماحولیاتی کوششوں کو آگے بڑھا رہا ہے یا پھر ان کو پیچھے دھکیل رہا ہے؟ اس مضمون میں، ہم اس سوال کا گہرائی سے جائزہ لیں گے کہ امریکہ کس طرح عالمی ماحولیاتی اہداف کو نقصان پہنچا سکتا ہے، اور کس طرح اس کی پالیسیاں عالمی ماحولیاتی کوششوں کو ناکام بنانے کے قریب ہیں۔
امریکہ کا عالمی ماحولیاتی معاہدوں سے انحراف: "کیا واشنگٹن خود اپنی جیب میں سوراخ کر رہا ہے؟”
امریکہ کی پالیسیوں میں عدم تسلسل ماحولیاتی اہداف کو تباہ کرنے کے لیے ایک اہم عنصر رہا ہے۔ جب سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیرس معاہدے سے دستبرداری کا اعلان کیا تو یہ ایک عالمی سطح پر ہلچل پیدا کرنے والا قدم تھا۔ پیرس معاہدہ 2015 میں ہوا تھا جس کا مقصد تھا کہ تمام ممالک مل کر ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کریں اور گلوبل وارمنگ کو 1.5 ڈگری سیلسیس تک محدود رکھیں۔
پیرس معاہدے سے امریکہ کی دستبرداری کو اکثر ماہرین نے تباہ کن اقدام قرار دیا۔ یہ معاہدہ دنیا کے تمام بڑے ممالک کی شراکت داری سے وجود میں آیا تھا اور امریکہ کی طرف سے اس سے دستبرداری نے ماحولیاتی کوششوں کو ایک بڑا دھچکا پہنچایا۔ صرف یہی نہیں، بلکہ امریکی حکومت نے اندرونی طور پر بھی فوسل فیول کے استعمال کو ترجیح دی اور قابل تجدید توانائی کے منصوبوں کو محدود کیا۔
تاہم، صدر جو بائیڈن کی حکومت نے پیرس معاہدے میں دوبارہ شمولیت اختیار کی، اور کئی نئے ماحولیاتی منصوبوں کا آغاز کیا۔ لیکن کیا یہ اقدامات مستقبل میں بھی جاری رہ سکیں گے؟ یا پھر ایک نئی حکومت کے آنے کے ساتھ یہ دوبارہ ختم ہو جائیں گے؟ ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ امریکہ کی پالیسیز کا استحکام عالمی ماحولیاتی اہداف کے لیے لازمی ہے۔
چین اور امریکہ: "کیا دو بڑے ممالک دنیا کو سبز بنا سکتے ہیں؟”
چین اور امریکہ دونوں دنیا کے سب سے بڑے کاربن خارج کرنے والے ممالک ہیں، اور دونوں کا کردار عالمی ماحولیاتی اہداف کو پورا کرنے میں کلیدی ہے۔ لیکن حالیہ برسوں میں دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی اور ماحولیاتی تعلقات میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔ امریکہ کی جانب سے چینی مصنوعات پر بھاری ٹیرف عائد کرنا، اور چینی گرین انرجی منصوبوں کو "سیکیورٹی خطرہ” کہنا، ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جاری عالمی کوششوں کو کمزور کر سکتا ہے
چین کا عالمی ماحولیاتی اقدامات میں اہم کردار ہے۔ چین نے اپنی گرین انرجی پالیسیز کے تحت بڑے پیمانے پر متبادل توانائی منصوبے شروع کیے ہیں، جن میں برقی گاڑیاں اور شمسی توانائی شامل ہیں۔ پاکستان جیسے ممالک، جو سی پیک منصوبے کے تحت چینی امداد سے گرین انرجی کی طرف بڑھ رہے ہیں، امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی سے براہ راست متاثر ہو سکتے ہیں۔ اگر امریکہ چین کے ماحولیاتی اقدامات کو سبوتاژ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ عالمی ماحولیاتی اہداف کے لیے نقصان دہ ہو گا۔
مالی تعاون کی کمی: "بھائی، پیسہ دکھاؤ!”
ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف عالمی جنگ میں مالی تعاون ایک اہم جزو ہے۔ امریکہ نے حالیہ برسوں میں ترقی پذیر ممالک کو موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مالی امداد فراہم کی ہے، لیکن Project 2025 کے تحت ممکنہ طور پر امریکی مالی تعاون میں کمی کی جا سکتی ہے۔ یہ وہی ممالک ہیں جنہوں نے اپنی معیشتوں کو بہتر کرنے کے لیے مالی امداد پر انحصار کیا ہے، اور امریکی امداد میں کمی عالمی ماحولیاتی کوششوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔
اگر امریکہ واقعی ترقی پذیر ممالک کے لیے مالی امداد کم کرتا ہے، تو اس کا سب سے زیادہ نقصان پاکستان جیسے ممالک کو ہو گا، جو ماحولیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے بچنے کے لیے عالمی امداد پر انحصار کرتے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید متاثر ہو چکا ہے، جیسا کہ 2022 کے سیلاب میں دیکھا گیا تھا، جہاں لاکھوں لوگ بے گھر ہو گئے تھے۔ امریکہ کی مالی مدد نہ صرف ترقی پذیر ممالک کو بچانے میں مدد کر رہی ہے بلکہ ان ممالک کو ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف مضبوط کرنے میں بھی اہم کردار ادا کر رہی ہے۔
عسکری کاربن اخراج: "گولیوں سے زیادہ کاربن کا اثر”
ماحولیاتی تبدیلی کے حوالے سے امریکہ کے عسکری اخراج بھی زیر بحث آتے ہیں۔ امریکی فوج دنیا کی سب سے بڑی کاربن خارج کرنے والی اداروں میں سے ایک ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر امریکہ اپنی فوجی سرگرمیوں کو کم نہیں کرتا تو یہ عالمی سطح پر ماحولیاتی اہداف کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
امریکی فوج کی بڑے پیمانے پر عسکری نقل و حرکت اور کاربن اخراج نے عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے مسئلے کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ اگر امریکہ اپنی عسکری سرگرمیوں کو کم کرتا ہے تو یہ دنیا کے لیے ایک بڑا قدم ہو گا، لیکن ابھی تک اس حوالے سے کوئی بڑا اقدام نہیں کیا گیا۔
پاکستان جیسے ممالک، جو خود عسکری لحاظ سے مضبوط ہیں، بھی امریکی عسکری اخراج کے اثرات سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ عسکری کاربن اخراج کو کم کرنے کی عالمی مہم میں امریکہ کا کردار انتہائی اہم ہے، اور اگر یہ ملک اس حوالے سے سنجیدگی سے کام نہیں کرتا، تو ماحولیاتی تبدیلی کا عالمی ہدف پورا ہونا مشکل ہو سکتا ہے۔
داخلی پالیسیز: "گرین انرجی بمقابلہ فوسل فیول”
امریکہ کی داخلی پالیسیاں بھی عالمی ماحولیاتی اہداف کو متاثر کرنے کا سبب بن سکتی ہیں۔ امریکہ میں فوسل فیول لابی بہت مضبوط ہے، اور حالیہ برسوں میں کئی ریاستوں نے فوسل فیول کے استعمال کو فروغ دیا ہے۔ دوسری طرف، نیویارک اور کیلیفورنیا جیسے بڑے شہر گرین انرجی کی طرف بڑھ رہے ہیں، لیکن یہ اقدامات ابھی تک قومی سطح پر اپنائے نہیں جا سکے۔
نیویارک میں فوسل فیول کی جگہ الیکٹرک توانائی کے استعمال کے لیے کوششیں کی جا رہی ہیں، لیکن یہ اقدامات ابھی تک ریاستی سطح پر محدود ہیں۔ اگر امریکی حکومتیں مستقبل میں فوسل فیول کے استعمال میں اضافہ کرتی ہیں تو عالمی سطح پر ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات بڑھ سکتے ہیں۔
نتیجہ: "امریکہ دوست یا دشمن؟”
مجموعی طور پر، امریکہ کی پالیسیز عالمی ماحولیاتی اہداف کو بڑی حد تک متاثر کر سکتی ہیں۔ اگر امریکہ اپنی موجودہ پالیسیز میں تبدیلی نہیں لاتا، تو عالمی ماحولیاتی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ چین کے ساتھ تعلقات، مالی تعاون میں کمی، عسکری کاربن اخراج اور داخلی پالیسیاں وہ بنیادی عوامل ہیں جو مستقبل میں ماحولیاتی اہداف کو ناکام بنانے کے قریب ہیں۔
پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک کے لیے، یہ ایک خطرے کی گھنٹی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے، اور اس کے اثرات ہر ایک پر پڑتے ہیں، چاہے آپ ایک ترقی یافتہ ملک کے شہری ہوں یا ایک ترقی پذیر ملک کے۔ امریکہ کو اس بات کا ادراک کرنا ہو گا کہ اس کی پالیسیاں صرف اس کی اپنی معیشت کو نہیں، بلکہ پوری دنیا کو متاثر کرتی ہیں۔