مودی-ٹروڈو تنازعہ: کسان، تاجر اور تاریخ کا جھگڑا
دیکھا جائے تو نریندر مودی اور جسٹن ٹروڈو کے بیچ ہونے والے تنازعے کی جڑیں کوئی آج کی بات نہیں، بلکہ یہ تو بھارت میں صدیوں سے چلتی کسانوں کی لڑائی کا تسلسل ہے، جو مغلوں کے دور سے چلی آ رہی ہے اور اب بین الاقوامی سیاست میں ہلچل مچا رہی ہے۔ لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر سوچیں، ان دونوں حضرات کے نظریات میں اتنا بھی فرق نہیں ہے۔ بنیامین نیتن یاہو سے پوچھ لیں، وہ تو شاید دونوں میں فرق بھی نہ کر پائیں، بلکہ کہہ دیں گے، "او بھائی، دونوں میرے ہی بندے ہیں!”
لیکن جیسا کہ قسمت کا کھیل ہوتا ہے، تاریخ نے مودی اور ٹروڈو کو ایک دوسرے کے سامنے کھڑا کر دیا ہے۔ ایک نوآبادیاتی ورثے کا چمپیئن، اور دوسرا قوم پرستی کا شیدائی—دونوں اس بکھرتے ہوئے سامراجی نظام کے مختلف ٹکڑوں پر سیاست چمکا رہے ہیں۔ لیکن اتنی نفرت بھی نہیں ہے جتنی ہم ٹی وی پر دیکھتے ہیں؛ دونوں کو ایک اچھے کپ کافی پر بھیج دیں، شاید مسئلہ حل ہو جائے۔
اب، بات کریں بھارت کی کسانوں اور بنیوں (یعنی ساہوکاروں) کی، تو یہ لڑائی تو اتنی پرانی ہے جتنی پاکستان کی لوڈشیڈنگ۔ منشی پریم چند نے اپنی کہانیوں میں اور بمل رائے نے اپنے فلموں میں خوب دکھایا ہے کہ یہ کسان ہر دور میں بس یہی سوال پوچھتے ہیں: "بھائی! ہم غریب کیوں ہیں؟”
اب آج کے زمانے میں ہریانہ میں کیا ہوا؟ وہاں کے کسانوں نے اپنی ریاست میں تیسری بار بی جے پی کو جیتوا دیا، حالانکہ بی جے پی تو تاجروں کی پارٹی سمجھی جاتی ہے۔ کسانوں کو شاید یہی لگ رہا ہو گا کہ "چلو بھائی، جب کھیتوں میں کچھ نہیں ہو رہا، تو ان کو ہی ووٹ دے دیں، شاید کوئی کام ہو جائے!” دوسری طرف کشمیر کا حال دیکھ لیں، وہاں بی جے پی جموں میں جیت گئی لیکن وادی میں نہیں۔ اب کشمیر میں انتخابات کا نتیجہ تو ایسا ہی ہو گا جیسے کراچی میں بجلی کا بل، کبھی سمجھ نہیں آتا۔
اگر تاریخ میں جھانکیں تو کانگریس کا پہلا انتخابی نشان بیلوں کی جوڑی تھا، مطلب کسانوں کا نمائندہ بننے کی کوشش۔ لیکن نہرو نے درمیانے درجے کے کسانوں (او بی سی) کو تھوڑا نظر انداز کر دیا، جو بعد میں ان کے مخالفین کے ساتھ چلے گئے۔ ان ہی میں سے لالو پرساد یادو کا جنم ہوا، جنہوں نے کہا: "کسان کا حق، کسان کے ساتھ!” اور ہل کا نشان شیخ عبداللہ نے بھی کشمیر میں اپنا لیا، کیونکہ وہاں کے کسانوں کو اپنی زمین کا مالک بنانے کے خواب دکھائے جا رہے تھے۔
اب ذرا تاجروں کو دیکھیں، انہیں ہمیشہ سے حکومتوں کی چمچ گیری ملتی رہی ہے، چاہے مغل ہوں، انگریز ہوں یا آزاد بھارت۔ اورنگزیب نے ہندو تاجروں کو شیواجی کے مراٹھوں سے بچانے کے لیے فوج بھیجی تھی، جیسے آج کل مودی حکومت سکھ کسانوں کو دہشت گرد کہہ کر تاجروں کو تحفظ دے رہی ہے۔ تاریخ بس دہرا رہی ہے، بس کردار بدلتے جا رہے ہیں۔
اور ادھر کینیڈا کی بات کریں تو 1914 میں "کومگاتا مارو” کا قصہ کافی مشہور ہے۔ ایک بحری جہاز وینکوور پہنچا، جس میں 376 سکھ، مسلمان اور ہندو کسان بھاگ کر برطانوی ظلم سے بچنے آئے تھے۔ لیکن بھائی، کینیڈا والوں نے انہیں اندر نہیں آنے دیا۔ بعد میں 2016 میں ٹروڈو نے معافی مانگی، لیکن سوال یہ ہے کہ "معافی تو ٹھیک ہے، اب کیا کرو گے؟”
اب بات یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ مودی اور ٹروڈو کے درمیان تنازعہ کا حل شاید راہول گاندھی کے پاس ہو، جو او بی سی کا اتحاد بنا کر ان مسائل کا پرامن حل ڈھونڈ رہے ہیں۔ لیکن مودی جی کے مشیر اس بارے میں کوئی دوسرا ہی منصوبہ رکھتے ہیں۔ اور ویسے بھی، یہ سیاست ہے، یہاں سب کچھ ٹویٹ اور ٹی وی پر ہی ہوتا ہے، باقی عوام بس سوچتی رہتی ہے کہ "آخر ہماری باری کب آئے گی؟”