چینی اکیڈمی آف سائنسز کے شینزن انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی (SIAT) کے محققین نے مصنوعی حیاتیات کی مدد سے وائرس کی منتقلی کا ایک نیا طریقہ دریافت کیا ہے، جیسے ہم پاکستانیوں نے کبھی نہ سوچا ہو!
یہ تحقیق "پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز” میں شائع ہوئی ہے، جس میں ای کولی بیکٹیریا اور M13 بیکٹیریوفیج کی حرکت پر غور کیا گیا ہے۔ پچھلے وقتوں میں سمجھا جاتا تھا کہ جانوروں کے ذریعے وائرس کی منتقلی بیماری کو تیز کرتی ہے، مگر اب یہ پتا چلا ہے کہ کچھ جانور، جیسے بادشاہ تتلیاں، طویل فاصلے پر وائرس منتقل کرتے ہوئے کم انفیکشن پیدا کرتی ہیں—ویسے ہی جیسے ہمارے ملک میں سفر کرنے والے کبھی جلدی نہیں پہنچتے!
محققین نے ای کولی بیکٹیریا کو میزبان اور M13 بیکٹیریوفیج کو وائرس کے طور پر استعمال کرتے ہوئے ایک ایسا سسٹم بنایا جہاں میزبان اور وائرس ایک دوسرے سے بات چیت کرتے ہیں—یہی کچھ ہمارے خاندان میں ہوتا ہے، جب سب ایک ہی موبائل کی طرف رخ کرتے ہیں!
اس تحقیق کے دوران، محققین نے مصنوعی حیاتیات کے ذریعے میزبان کی حرکت اور وائرس کی خصوصیات کو تبدیل کیا اور ریاضیاتی ماڈلز کا استعمال کرتے ہوئے یہ دریافت کیا کہ جتنی تیزی سے بیکٹیریا حرکت کرتے ہیں، اتنا ہی آسانی سے وہ متاثرہ بیکٹیریا کو "کچل” دیتے ہیں، اور نتیجتاً آبادی میں مکمل طور پر صحت مند بیکٹیریا رہ جاتے ہیں—ویسے ہی جیسے ہماری گلیوں میں سالوں سے کسی کے چھوٹے بچے تیز دوڑتے ہیں!
SIAT کے Fu Xiongfei نے کہا کہ یہ تحقیق متعدی بیماریوں کی منتقلی کے نمونوں کو گہرائی سے سمجھنے میں مددگار ثابت ہو گی—اور ہمیں ان بیماریوں کے "فٹنس ٹرینر” کی طرح نئے طریقے سیکھنے کی ضرورت ہے!
مزید تفصیلات
چینی محققین نے وائرس کی منتقلی میں نیا نمونہ دریافت کر کے سائنس کی دنیا کو حیران کر دیا ہے۔ شینزن انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ ٹیکنالوجی (SIAT) کی تحقیق، جو چینی اکیڈمی آف سائنسز کے تحت کام کرتی ہے، نے پروسیڈنگز آف دی نیشنل اکیڈمی آف سائنسز (PNAS) میں شائع ہونے والی اپنی تحقیق میں وائرس کے پھیلاؤ سے متعلق ایک نیا انداز پیش کیا ہے۔
ماضی میں یہ مانا جاتا تھا کہ جانوروں کی نقل و حرکت وائرس کے پھیلاؤ کو تیز کرتی ہے۔ لیکن محققین نے اپنی تحقیق سے یہ نیا انکشاف کیا ہے کہ کچھ جانور، جیسے بادشاہ تتلیاں، لمبے فاصلے طے کرنے کے باوجود بیماری کے پھیلاؤ کا امکان کم رکھتی ہیں۔ جی ہاں، تتلیوں نے ایسا کمال کر دکھایا ہے کہ وہ ہم پاکستانیوں کو سوچنے پر مجبور کر دیتی ہیں کہ یہ "تتلی گردی” ہماری بیماریوں کا علاج بن سکتی ہے۔
محققین نے تجرباتی تحقیق کے لیے E. coli بیکٹیریا اور M13 بیکٹیریوفیج کا انتخاب کیا۔ انہوں نے ایک لیبارٹری سسٹم بنایا جہاں بیکٹیریا میزبان تھے اور وائرس ان پر حملہ آور۔ اس تجربے سے انہوں نے یہ مشاہدہ کیا کہ میزبان کی سمتاتی حرکت اور رفتار وائرس کی منتقلی پر کیسے اثر ڈالتی ہے۔
یہاں مزے کی بات یہ ہے کہ محققین نے دیکھا کہ جتنا زیادہ بیکٹیریا منظم طریقے سے حرکت کریں، اتنا ہی آسانی سے متاثرہ بیکٹیریا ان کے گروپ سے باہر ہو جاتے ہیں۔ آخر کار، گروپ میں صرف صحت مند بیکٹیریا بچتے ہیں، جیسے کسی گاؤں کی گلی میں روز دوڑنے والے بچے آخر کار صحت مند رہتے ہیں، اور بیمار بچے گھر بیٹھ جاتے ہیں!
محققین نے مصنوعی حیاتیات اور ریاضیاتی ماڈلز کے ذریعے یہ ثابت کیا کہ میزبان کی منظم حرکت نہ صرف وائرس کے انفیکشن کو کم کرتی ہے بلکہ یہ پورے نظام کو "دھوتی” بھی ہے۔ یہ دریافت ایک نئے زاویے سے متعدی بیماریوں کے پھیلاؤ کو سمجھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
ایس آئی اے ٹی کے Fu Xiongfei کا کہنا ہے کہ یہ تحقیق نہ صرف وائرس کی منتقلی کے نمونوں کو گہرائی سے سمجھنے میں مددگار ہے بلکہ یہ انفرادی اور سماجی رویوں کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔
اب ذرا سوچیں، اگر ہم لوگ بھی اپنی گلی، محلے اور شہروں میں "منظم حرکت” کا فارمولا اپنائیں، تو بیماریوں کے ساتھ ساتھ ٹریفک کا بھی علاج ہو سکتا ہے! محققین کی یہ تحقیق صرف لیبارٹری تک محدود نہیں، بلکہ بڑی آبادیوں، انسانی رویوں اور ماحول پر بھی اثر ڈال سکتی ہے۔
یہ تحقیق وائرس کی منتقلی کے پیچیدہ نظام کو بہتر طور پر سمجھنے کا موقع دیتی ہے اور ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ صرف رفتار ہی سب کچھ نہیں، بلکہ صحیح سمت اور منظم حرکت زیادہ اہم ہے۔ امید ہے کہ یہ نئی بصیرت متعدی بیماریوں کی روک تھام کے لیے مزید مؤثر حکمت عملیوں کو جنم دے گی۔
#UrduBusinessNews #CryptoNewsPakistan #LatestFinanceTrends #TechUpdatesPakistan #UrduCryptoNews #StockMarketUpdates #AIInPakistan #BlockchainNewsUrdu #PakistaniEconomyUpdates #InvestmentNewsUrdu