چند ہفتے پہلے، گوتم اڈانی، جو دنیا کے امیر ترین افراد میں شمار ہوتے ہیں، نے ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی فتح کا جشن منایا اور امریکہ میں توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا تھا۔ مگر اب جو کہانی سامنے آئی ہے، وہ کچھ مختلف ہے۔
62 سالہ بھارتی ارب پتی، جو وزیراعظم نریندر مودی کے قریبی ساتھی ہیں اور جن کی 169 ارب ڈالر کی سلطنت پورٹس، قابل تجدید توانائی، اور کئی دیگر شعبوں میں پھیلی ہوئی ہے، اب امریکی فراڈ کے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں، جو ان کی عالمی اور مقامی عزائم کے لیے بڑا خطرہ بن سکتے ہیں۔
امریکی وفاقی استغاثہ نے ان پر 250 ملین ڈالر کی رشوت کے اسکینڈل میں ملوث ہونے اور اسے چھپانے کا الزام عائد کیا ہے تاکہ وہ امریکہ میں پیسہ اکٹھا کر سکیں۔ ساتھ ہی یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ اڈانی اور ان کے ایگزیکٹوز نے گزشتہ 20 سالوں میں 2 ارب ڈالر کے منافع کے لیے بھارتی حکام کو رشوت دی۔ اڈانی گروپ نے ان الزامات کو "بے بنیاد” قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔
ابھی تو بات بھی نہیں آئی تھی، اور اڈانی گروپ کو ان الزامات کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔ جمعرات کو، ان کی کمپنیوں کی مارکیٹ ویلیو میں 34 ارب ڈالر کا نقصان ہوا، جس سے ان کی 10 کمپنیوں کی مجموعی مارکیٹ کیپٹلائزیشن 147 ارب ڈالر تک محدود ہوگئی۔ اڈانی گرین انرجی، جو ان الزامات کا مرکز ہے، نے 600 ملین ڈالر کے بانڈز جاری کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔
اب سوال یہ ہے کہ یہ الزامات بھارتی سیاست اور معیشت پر کس طرح اثر انداز ہوں گے؟ اڈانی کی کمپنیوں کا بھارت کی معیشت میں بڑا حصہ ہے۔ وہ 13 بندرگاہوں (جو مارکیٹ کا 30% ہیں)، سات ہوائی اڈوں (23% مسافر آمدورفت)، اور بھارت کے دوسرے سب سے بڑے سیمنٹ کاروبار (مارکیٹ کا 20%) کے مالک ہیں۔ اس کے علاوہ، وہ کوئلے سے چلنے والے چھ پاور پلانٹس کے مالک ہیں اور بھارت کے سب سے بڑے نجی کھلاڑی ہیں۔ وہ سبز ہائیڈروجن میں 50 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا وعدہ کر چکے ہیں اور 8,000 کلومیٹر طویل قدرتی گیس پائپ لائن چلا رہے ہیں۔
مگر کچھ کہنا نہیں، یہ بھی کوئی چھوٹا موٹا سکہ نہیں، اڈانی کے تمام کاروبار وزیر اعظم مودی کی پالیسیوں سے جڑے ہوئے ہیں، خاص طور پر انفراسٹرکچر اور صاف توانائی کے شعبوں میں۔
لیکن جب ایسی بڑی سلطنت پر کرونی کیپٹل ازم کا الزام لگے تو بات تو بننے والی تھی۔ دونوں مودی اور اڈانی گجرات سے تعلق رکھتے ہیں، لیکن اڈانی نے مخالف سیاسی رہنماؤں سے بھی تعلقات استوار کیے ہیں اور مختلف ریاستوں میں سرمایہ کاری کی ہے۔
بھارتی صحافی پرانجوئے گوہا ٹھاکرتا کے مطابق، "یہ الزامات بہت بڑے ہیں، اور یہ بھارتی سیاسی معیشت پر اثر انداز ہوں گے۔”
یہ بحران اس وقت آیا جب اڈانی گروپ نے 2023 میں ہندنبرگ ریسرچ کی رپورٹ کے بعد اپنی شبیہہ کو بحال کرنے کی کوشش کی تھی، جس میں ان کے گروپ پر دہائیوں سے اسٹاک ہیرا پھیری اور دھوکہ دہی کے الزامات لگائے گئے تھے۔ اڈانی نے ان دعووں کی تردید کی تھی، لیکن ان الزامات نے بھارت کی مارکیٹ میں فروخت اور مارکیٹ ریگولیٹر SEBI کی تحقیقات کو جنم دیا۔
امریکی تھنک ٹینک ولسن سینٹر کے مائیکل کوگل مین کے مطابق، "اڈانی اپنی شبیہہ کو دوبارہ بنانے کی کوشش کر رہے تھے، لیکن یہ الزامات ان کے لیے ایک بڑا دھچکا ہیں۔”
اب، اڈانی کو اپنے پروجیکٹس کے لیے فنڈز اکٹھا کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔ آزاد تجزیہ کار امبریش بالیگا کے مطابق، "مارکیٹ کا ردعمل ظاہر کرتا ہے کہ یہ کتنی سنگین صورتحال ہے۔ اڈانی اپنے بڑے منصوبوں کے لیے فنڈنگ حاصل کرنے میں کامیاب ہوں گے، لیکن اس میں تاخیر ہو سکتی ہے۔”
یہ الزامات اڈانی کے عالمی منصوبوں پر بھی اثر ڈال سکتے ہیں۔ انہیں پہلے ہی کینیا اور بنگلہ دیش میں منصوبوں پر چیلنجز کا سامنا ہے۔
سنگاپور مینجمنٹ یونیورسٹی کے پروفیسر نرملیا کمار نے کہا، "یہ الزامات امریکی توسیعی منصوبوں کو متاثر کر سکتے ہیں۔”
سیاسی طور پر، اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی نے اڈانی کی گرفتاری کا مطالبہ کیا ہے، اور ان کے مطابق یہ ہندوستانی سیاسی منظرنامے میں ردعمل کا سبب بن سکتا ہے۔
اب، اڈانی کی ٹیم ممکنہ طور پر اپنے دفاع میں اعلیٰ درجے کی قانونی مدد حاصل کرے گی، اور یہ ممکنہ طور پر بھارت اور امریکہ کے تجارتی تعلقات پر اثر انداز ہو سکتا ہے، مگر امریکی بھارت کاروباری تعلقات میں وسیع تر رابطے مضبوط ہیں۔
مگر ایک بات تو طے ہے، بھارت اور امریکہ کے اس کاروباری تعلقات کی کشتی میں اب کچھ ہچکولے تو آئیں گے!
مزید تفصیلات
گوتھم اڈانی، ایک بھارتی ارب پتی، جنہوں نے اپنے کاروباری سفر کی ابتدا ایک معمولی پس منظر سے کی اور آج وہ دنیا کے سب سے امیر افراد میں شامل ہیں، ان کا کاروباری امپائر بے حد متنازعہ ہو چکا ہے۔ ان کا گروپ جو مختلف شعبوں میں کام کرتا ہے، خصوصاً انفراسٹرکچر، توانائی اور بندرگاہوں میں، عالمی سطح پر مشہور ہو چکا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں اڈانی کی کمپنیوں کے خلاف مالی بدعنوانی کے الزامات اور امریکہ میں فراڈ کے کیسز نے ان کے کاروباری امپائر کو ایک سخت چیلنج کا سامنا کروا دیا ہے۔
اڈانی گروپ کا کاروباری ماڈل
اڈانی گروپ، جس کا آغاز 1988 میں گوتھم اڈانی نے کیا، مختلف شعبوں میں کام کرتا ہے، جن میں بنیادی طور پر پورٹس، توانائی، اور لاجسٹکس شامل ہیں۔ ان کی کمپنی کا ماڈل کافی متنوع ہے، جو نہ صرف بھارت بلکہ عالمی سطح پر بھی اپنے آپ کو مستحکم کر چکا ہے۔
1. پورٹس اور لاجسٹکس:
اڈانی گروپ کی سب سے بڑی کامیابیوں میں سے ایک ان کے پورٹس اور لاجسٹکس کا شعبہ ہے۔ اڈانی پورٹس اور ایس ای زیڈ بھارت کا سب سے بڑا نجی بندرگاہ آپریٹر ہے۔ ان کے گروپ کے تحت 13 بندرگاہیں ہیں جو بھارت کی تجارت کا تقریباً 30% سامان سنبھالتی ہیں۔ اڈانی پورٹس صرف یہاں تک محدود نہیں، بلکہ اس نے لاجسٹکس کے شعبے میں بھی سرمایہ کاری کی ہے، جس میں ریل، روڈ ٹرانسپورٹ، گودام اور مال برداری شامل ہیں۔
2. توانائی کا شعبہ:
توانائی کے شعبے میں اڈانی گروپ کی حیثیت بہت بڑی ہے۔ ان کے پاس چھ بڑے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر ہیں، جو لاکھوں افراد کو بجلی فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، اڈانی گروپ صرف فوسل ایندھن تک محدود نہیں، بلکہ اس نے صاف توانائی کے منصوبوں میں بھی زبردست سرمایہ کاری کی ہے۔ اڈانی گرین انرجی، جو اڈانی گروپ کی ذیلی کمپنی ہے، دنیا کی سب سے بڑی شمسی اور ہوا کی توانائی کمپنیوں میں سے ایک ہے۔
3. کان کنی اور اجناس:
اڈانی گروپ کی کان کنی کی سرگرمیاں بھارت کے ساتھ ساتھ کئی دوسرے ممالک میں بھی پھیل چکی ہیں، جن میں سب سے معروف آسٹریلیا کا کارمیکل کوئلہ منصوبہ ہے۔ اس منصوبے پر سخت تنقید کی گئی ہے، لیکن یہ اڈانی گروپ کے عالمی سطح پر پھیلنے کا ایک اہم حصہ بن چکا ہے۔ اڈانی گروپ دنیا بھر میں کوئلہ، قدرتی گیس اور دیگر معدنیات کی تجارت کرتا ہے۔
4. ہوائی اڈے اور رئیل اسٹیٹ:
اڈانی گروپ نے ہوائی اڈوں کے انتظام میں بھی قدم رکھا ہے۔ ان کے گروپ کے تحت بھارتی شہروں جیسے ممبئی، احمدآباد، اور لکھنؤ کے ہوائی اڈے ہیں۔ اس کے علاوہ، اڈانی ریئلٹی کے ذریعے رہائشی، تجارتی اور صنعتی پراپرٹیز بھی بنائی جا رہی ہیں، جس سے ان کا انفراسٹرکچر کے شعبے میں مضبوط قدم جڑ چکا ہے۔
5. زراعت اور فوڈ پروسیسنگ:
اڈانی گروپ کی زراعت اور فوڈ پروسیسنگ کے شعبے میں بھی دلچسپی ہے۔ اڈانی ولمار، جو سنگاپور کی کمپنی وِلمار انٹرنیشنل کے ساتھ مشترکہ منصوبہ ہے، بھارت کا سب سے بڑا خوردنی تیل پیدا کرنے والا ادارہ ہے۔
گوتھم اڈانی کی قیادت اور کاروباری حکمت عملی
گوتھم اڈانی کا کاروباری سفر ان کی جرات مندی، حکمت عملی، اور عالمی سطح پر مواقع کا فائدہ اٹھانے کی صلاحیت کی مثال ہے۔ ان کی کمپنیوں کا بے تحاشا پھیلاؤ ایک طرف ان کی کامیابی کی علامت ہے، تو دوسری طرف یہ متنازعہ بھی بن چکا ہے۔ ان کی بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ قریبی تعلقات بھی زیر بحث رہے ہیں، جن کے بارے میں بعض حلقے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اڈانی کی کامیابی ان کے سیاسی تعلقات کی بدولت ہوئی ہے۔
اڈانی گروپ نے عالمی سطح پر اپنے قدم جمائے ہیں، اور خاص طور پر آسٹریلیا، انڈونیشیا اور افریقہ میں کاروبار کی توسیع کی ہے۔ ان کا سب سے معروف منصوبہ آسٹریلیا کا کارمیکل کوئلہ منصوبہ ہے، جس پر عالمی سطح پر خاصی بحث ہو چکی ہے۔
مالی کامیابی اور متنازعہ الزامات
اگرچہ اڈانی گروپ کی مالی کامیابی بے مثال رہی ہے، لیکن اس پر بہت سے سوالات اٹھائے گئے ہیں۔ 2023 میں ہنڈن برگ ریسرچ کی رپورٹ میں اڈانی گروپ کے بارے میں اسٹاک کی ہیرا پھیری اور اکاؤنٹنگ میں بے قاعدگیوں کے الزامات عائد کیے گئے، جس کے نتیجے میں اڈانی گروپ کی کمپنیوں کے شیئرز کی قیمت میں شدید کمی آئی۔ اڈانی گروپ نے ان الزامات کو بے بنیاد قرار دیا ہے، لیکن ان کی کمپنیوں کے حوالے سے شکوک و شبہات بڑھ چکے ہیں۔
حال ہی میں، اڈانی گروپ پر امریکہ میں فراڈ کے الزامات عائد کیے گئے ہیں، جس میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اڈانی نے بھارتی حکومتی افسران کو رشوت دی تاکہ وہ اپنے کاروبار کو فائدہ پہنچا سکیں۔ اڈانی گروپ نے ان الزامات کی تردید کی ہے، لیکن ان الزامات نے ان کی مالی حالت پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
اڈانی کی عالمی ترقی کی خواہشات
الزامات کے باوجود، اڈانی گروپ کی عالمی سطح پر ترقی کی خواہشات بدستور برقرار ہیں۔ اڈانی گروپ نے صاف توانائی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرنے کا عہد کیا ہے اور 50 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا منصوبہ تیار کیا ہے تاکہ وہ دنیا کی سب سے بڑی صاف توانائی پیدا کرنے والی کمپنی بن سکے۔
نتیجہ
گوتھم اڈانی کی کاروباری کامیابی ایک طرف جہاں ان کے کاروباری عزم اور حکمت عملی کی گواہی دیتی ہے، وہیں دوسری طرف ان کی کمپنیوں پر لگنے والے الزامات نے ان کے کاروبار کے مستقبل پر سوالات اٹھا دیے ہیں۔ اڈانی گروپ کی مالی کامیابی اور عالمی ترقی کے عزائم کے باوجود، ان کے لیے آنے والے دن بہت اہم ہیں۔ ان الزامات کا سامنا کرنا اور اپنے کاروبار کو برقرار رکھنا اڈانی گروپ کے لیے سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔