اسلام آباد: 2025 سے زرعی ٹیکس لگنے والے ہیں، اور زرعی ماہرین کا کہنا ہے کہ دیہی نوجوانوں کو کھیتوں کی طرف راغب کیے بغیر یہ معاملہ حل نہیں ہوگا۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر بروقت اقدامات نہ کیے گئے تو ہمارے نوجوان کھیتی باڑی چھوڑ کر یا تو سوشل میڈیا کے فل ٹائم ٹرینڈ سیٹر بن جائیں گے یا کسی غیر قانونی دھندے میں ہاتھ ڈال دیں گے۔
ہفتہ کے روز نیشنل پریس کلب میں زرعی ماہر خان فراز نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ زراعت ہماری معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے، لیکن ریڑھ کی ہڈی کو سیدھا رکھنے کے لیے دیہی نوجوانوں کو "زمین سے جڑنے” پر آمادہ کرنا ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی 70 فیصد برآمدات زراعت سے جڑی ہیں، لیکن زمینی حقائق یہ ہیں کہ 1990 کے مقابلے میں آج کاشتکاری کی اوسط زمین تین ہیکٹر (7.4 ایکڑ) پر سکڑ چکی ہے۔
خان صاحب نے طنزیہ انداز میں کہا، "اگر زمین کا یہی حال رہا تو کل کو ہمارے دیہی کسان کی جیب میں کھیت ہوگا اور ہاتھ میں ڈرون، جو صرف تصویریں لینے کے کام آئے گا!”
انہوں نے یہ بھی نشاندہی کی کہ بڑے زمیندار تو اپنی جگہ جمے بیٹھے ہیں، لیکن چھوٹے کسانوں کے لیے حالات "ایمانداری سے کھیتی کرو، لیکن ٹریکٹر کا خواب نہ دیکھو” جیسا بن چکا ہے۔ زراعت میں جدید ٹیکنالوجی کا استعمال مہنگے داموں کی وجہ سے خواب بن کر رہ گیا ہے، اور زیادہ تر کسان "ہاتھ سے کام چلاؤ” پالیسی پر ہیں۔
خان فراز نے مشورہ دیا کہ دیہی نوجوانوں کو غیر قانونی راستوں سے ہٹانے کے لیے حکومت کو ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو زراعت کو ان کے لیے "کھیل کا میدان” بنا دیں۔ وہ کہتے ہیں، "اگر ہم نے زرعی پالیسی میں تھوڑا سا مزہ، جدیدیت، اور نوجوانوں کا جذبہ شامل نہ کیا، تو کل کو ہمارے کھیتوں میں کسان کم اور یوٹیوبرز زیادہ ہوں گے!”
مزید یہ کہ شہری کاری اور زمین کی وراثت کے مسائل نے بھی کسانوں کو مشکل میں ڈال رکھا ہے۔ زمین سکڑنے کا رجحان نہ صرف کھیتوں کی معیشت کو متاثر کر رہا ہے بلکہ نئی نسل کو کھیتی باڑی سے دور بھی کر رہا ہے۔
لہذا، دیہی نوجوانوں کو زرعی پیداوار میں شامل کرنے کے لیے ایسی پالیسیاں بنانی ہوں گی جو زراعت کو "کول” بنائیں اور نوجوانوں کو یہ سمجھائیں کہ زمین سے جڑنا نہ صرف منافع بخش ہے بلکہ ماحولیاتی ہیرو بننے کا موقع بھی!
ایس ای او: زرعی ٹیکس، دیہی نوجوان، زرعی پالیسی، پاکستان کی زراعت، کسانوں کے مسائل، جدید زراعت، زمینی مسائل۔
مزید تفصیلات
2025 سے زرعی ٹیکس کا نفاذ: ماہرین کا دیہی نوجوانوں کو زرعی سرگرمیوں میں شامل کرنے پر زور
پاکستان میں جنوری 2025 سے زرعی ٹیکس کے نفاذ کی تیاری کی جا رہی ہے، اور ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام دیہی نوجوانوں کو زرعی پیداوار کی سرگرمیوں میں شامل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ اس پالیسی کا مقصد ملک کے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا ہے، لیکن ساتھ ہی یہ دیہی ترقی کے لیے چیلنجز اور مواقع پیدا کر رہا ہے۔
دیہی نوجوانوں کو کھیتوں کی طرف لانے کی ضرورت
زرعی ماہرین کو تشویش ہے کہ آج کے دیہی نوجوان کھیت چھوڑ کر یا تو شہروں کی طرف جا رہے ہیں یا ایسے "غیر پیداواری” کاموں میں مشغول ہو رہے ہیں جو کھیتی باڑی کو پس پشت ڈال دیتے ہیں۔ نیشنل پریس کلب میں خطاب کرتے ہوئے زرعی ماہر خان فراز نے زور دیا کہ نوجوانوں کو زرعی سرگرمیوں کی طرف راغب کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے، ورنہ ہم انہیں یا تو سوشل میڈیا پر "ٹک ٹاک فارمر” بنتے دیکھیں گے یا کسی اور غیر قانونی راستے پر چلتے۔
خان فراز نے کہا کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جہاں زراعت جی ڈی پی کا 23 فیصد حصہ ڈالتی ہے، 33.4 فیصد افراد کو روزگار فراہم کرتی ہے، اور 70 فیصد برآمدات زراعت سے جڑی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود دیہی نوجوانوں میں کھیتی باڑی کے لیے دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے، جو ایک سنگین مسئلہ ہے۔
زرعی شعبے کے اہم مسائل
پاکستان میں زمین کے سکڑتے ہوئے رقبے نے کسانوں کی زندگی مزید مشکل بنا دی ہے۔ 1990 میں ایک کسان کے پاس اوسطاً پانچ ہیکٹر (12.4 ایکڑ) زمین تھی، لیکن آج یہ کم ہو کر تین ہیکٹر (7.4 ایکڑ) رہ گئی ہے۔ خاندانی زمین کی تقسیم اور وراثت کے طریقوں نے زمین کے ٹکڑوں کو اتنا چھوٹا کر دیا ہے کہ اب "کسانی” کے بجائے "باغبانی” کا سا ماحول بن گیا ہے۔
اس کے علاوہ، زمین کی ملکیت میں عدم مساوات بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بڑے زمیندار زیادہ تر زمین پر قابض ہیں، جبکہ چھوٹے کسانوں کے لیے زمین کے چھوٹے ٹکڑوں پر کھیتی کرنا ایک مشکل اور مہنگا کام بن چکا ہے۔ شہری کاری نے بھی زرعی زمین کو رہائشی اور تجارتی منصوبوں میں تبدیل کر دیا ہے، جس سے زمین کا مزید سکڑاؤ ہوا ہے۔
دیہی زندگی پر اثرات
دیہی خاندانوں کے لیے زراعت سے منافع کمانا مشکل تر ہو رہا ہے۔ چھوٹے کسان جدید ٹیکنالوجی یا مشینری خریدنے کی استطاعت نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے ان کی پیداوار بڑی زمینوں کے مقابلے میں کم ہوتی ہے۔ اس پر مستزاد، موسمیاتی تبدیلی چھوٹے کسانوں کو زیادہ متاثر کر رہی ہے، کیونکہ ان کے پاس حالات کا مقابلہ کرنے کے وسائل کم ہیں۔
زرعی شعبے کو بچانے کا نسخہ
ماہرین کا کہنا ہے کہ زراعت کو ایک "کول پروفیشن” بنانے کے لیے نوجوانوں کو کھیتی باڑی کی جانب راغب کرنا ہوگا۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ جدید ٹیکنالوجی متعارف کروائی جائے، کسانوں کو آسان قرضے دیے جائیں، اور زراعت کو ایک منافع بخش پیشہ بنایا جائے۔ حکومت کو نوجوان کسانوں کے لیے خصوصی سبسڈیز اور ٹیکس چھوٹ جیسے اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔
خان فراز نے مسکراتے ہوئے کہا، "اگر ہم نے زرعی شعبے کو نوجوانوں کے لیے کشش کا ذریعہ نہ بنایا، تو کل ہمارے کھیتوں میں کسان کم اور یوٹیوبرز زیادہ نظر آئیں گے!”
نتیجہ
2025 سے زرعی ٹیکس کا نفاذ ایک بڑا موقع ہے، لیکن یہ دیہی علاقوں کے مسائل کو حل کیے بغیر ممکن نہیں۔ اگر دیہی نوجوانوں کو کھیتوں کی طرف لانے کی سنجیدہ کوشش کی جائے، تو پاکستان زراعت کو ترقی کا ایک نیا باب بنا سکتا ہے۔
ایس ای او: زرعی ٹیکس، دیہی نوجوان، زرعی ترقی، پاکستان کی زراعت، زرعی پالیسیاں، کسانوں کے مسائل، زراعت کی جدیدیت۔
#BusinessTrendsPakistan #CryptoTradingTips #PakistaniStockMarket #UrduTechNews #DigitalEconomyPakistan #BitcoinPakistan #FinanceNewsPakistan #StartupTrendsUrdu #BlockchainBasics #UrduEconomicUpdates