وزارت تجارت کے جاری کردہ بیان کے مطابق، منگل کو وفاقی کابینہ کی کمیٹی نے گوادر پورٹ کو عوامی شعبے کی درآمدات کے لیے "مستقبل کا گیٹ وے” بنانے کے روڈ میپ پر غور کیا۔
وفاقی وزیر تجارت جام کمال خان کی قیادت میں یہ اجلاس بالکل "کراچی کے بریانی مقابلے” جیسا تھا، جہاں سب نے گوادر پورٹ کی افادیت کو بڑھانے کے لیے اپنی اپنی ترکیبیں پیش کیں۔ اجلاس کا مقصد یہ تھا کہ پبلک سیکٹر کی 60 فیصد درآمدات — جن میں گندم، کھاد اور چینی شامل ہیں — گوادر پورٹ کے ذریعے منتقل کی جائیں، تاکہ بندرگاہ کا زیادہ سے زیادہ استعمال کیا جا سکے۔
اہم گفتگو:
اجلاس میں وفاقی وزیر برائے بحری امور قیصر احمد شیخ سمیت اعلیٰ حکام نے شرکت کی اور گوادر پورٹ کو "کاروبار کا دلہا” بنانے پر غور کیا۔ اجلاس کے دوران یہ طے پایا کہ اسٹریٹجک اقدام کے تحت بندرگاہ کے استعمال کو مزید بڑھانے کے لیے ایک عملی روڈ میپ تیار کیا جائے گا۔
حکمت عملی:
جام کمال خان نے دو نکاتی "سپیشل ریسیپی” تجویز کی:
- ہمہ گیر وژن: گوادر کو قومی تجارتی فریم ورک کا اہم حصہ بناتے ہوئے کاروباری ماحول کو ایسا "چمکدار” بنایا جائے کہ سب کی نظریں گوادر پر جم جائیں۔
- فوری اقدامات: ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان (TCP) کے ذریعے "فوری” اشیاء جیسے گندم، چینی اور کھاد کی درآمد گوادر پورٹ کے راستے کی جائے۔
نجی شعبے کی انٹری:
اجلاس میں یہ بھی طے ہوا کہ نجی شعبے کو موقع دیا جائے تاکہ وہ بھی گوادر کی بندرگاہ کے "فائدے” میں اپنا حصہ ڈالیں۔ خصوصی ورکنگ گروپ کے ذریعے یہ طے کیا جائے گا کہ نجی شعبے کی کن اشیاء کو گوادر کے راستے درآمد اور برآمد کیا جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی، ضروری مراعات فراہم کی جائیں گی تاکہ کاروباری طبقے کو بھی "گوادر کا عشق” ہو جائے۔
بین الاقوامی روابط:
اجلاس میں افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں (CARs) کے لیے گوادر پورٹ کی ٹرانزٹ اور تجارتی اہمیت کا جائزہ لیا گیا۔ کمیٹی نے چین کی دلچسپی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) کے تحت گوادر "ایشیا کا ہاٹ اسپاٹ” بن سکتا ہے۔
وزیر اعظم کی ہدایت:
وزیر اعظم نے پبلک کارگو کا 50 فیصد حصہ گوادر پورٹ کے ذریعے منتقل کرنے کی ہدایت دی۔ اجلاس میں "کراچی اور گوادر کے درمیان لاگت کے فرق” کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا تاکہ مسابقتی فوائد حاصل کیے جا سکیں۔
قابل عمل اقدامات:
کمیٹی نے بندرگاہ کے استعمال کو بڑھانے کے لیے سڑک اور ریل رابطے، انشورنس کی سہولت اور حفاظتی انتظامات جیسے "قابل عمل عوامل” پر مبنی ایک ورکنگ پیپر تیار کرنے کی منظوری دی، جو اگلی میٹنگ میں وزیر اعظم کو پیش کیا جائے گا۔
خلاصہ:
گوادر پورٹ اب "چمکتا ہوا اسٹار” بننے کے لیے تیار ہے۔ گندم، چینی اور کھاد اب "کراچی کے راستے” سے نکل کر گوادر کا رخ کریں گی تاکہ نہ صرف بندرگاہ کی رونقیں بڑھیں بلکہ معیشت میں نئی جان بھی آئے۔ اس پورے عمل میں نجی شعبہ بھی "ہیرو” کا کردار ادا کرے گا، اور گوادر کو ایشیا کی تجارتی ریڑھ کی ہڈی بنانے کے خواب کو حقیقت میں بدلا جائے گا۔
گوادر تیار ہے — آپ ہیں؟
مزید تفصیلات
کابینہ نے حالیہ اجلاس میں گوادر پورٹ کو عوامی شعبے کی درآمدات کے لیے زیادہ مؤثر طریقے سے استعمال کرنے پر غور کیا، جس میں خاص طور پر گندم، چینی اور کھاد جیسی اشیاء کو پورٹ کے ذریعے درآمد کرنے کی منظوری دی گئی۔ وزیر اعظم شہباز شریف کی قیادت میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ 50 فیصد سرکاری کارگو کو کراچی کے بجائے گوادر بندرگاہ سے گزارا جائے گا۔ مقصد صاف ہے: گوادر کی بندرگاہ کو ایک ٹرانزٹ حب میں تبدیل کر کے معیشت کو سہارا دینا اور بلوچستان میں ترقی کے دروازے کھولنا۔
اجلاس میں زور دیا گیا کہ بندرگاہ کے استعمال کو بڑھا کر مقامی روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں گے اور علاقے کے بنیادی ڈھانچے (Infrastructure) میں بہتری آئے گی۔ کراچی پورٹ پر لوڈ شیڈنگ کی طرح رش کو ختم کرنے کے لیے گوادر پورٹ کو متبادل کے طور پر مکمل طور پر فعال کرنے کی حکمت عملی زیر بحث آئی۔
یہ منصوبہ نہ صرف گوادر بلکہ پورے پاکستان کے لیے گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔ بندرگاہ کی جغرافیائی اہمیت کو مدِنظر رکھتے ہوئے، اسے چائنا-پاکستان اکنامک کاریڈور (CPEC) کے تناظر میں بھی اہمیت دی جا رہی ہے تاکہ علاقائی تجارت کو فروغ ملے اور عالمی سرمایہ کاری کو ترغیب دی جا سکے۔
چونکہ کراچی پورٹ ہمیشہ کی طرح "ہاؤس فل” چلتی ہے، اس اقدام سے درآمدات کی لاگت میں کمی اور وقت کی بچت ممکن ہوگی۔ تاہم، اجلاس میں یہ بات بھی نوٹ کی گئی کہ گوادر اور کراچی کے درمیان لاجسٹک کاسٹ کے فرق کو ختم کرنا ضروری ہوگا تاکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں مسابقت برقرار رکھی جا سکے۔
یہ فیصلہ خاص طور پر ان بنگالی بھائیوں کے ساتھ کیے جانے والے حکومت سے حکومت (G2G) معاہدوں کے لیے سودمند ہوگا جہاں سے چاول کے بدلے میں گندم اور چینی کے سودے ہوتے رہتے ہیں۔ اجلاس میں یہ بھی طے ہوا کہ گوادر پورٹ کو فعال کرنے کے لیے حکومتی اقدامات کے ساتھ نجی شعبے کی شمولیت کو یقینی بنایا جائے گا۔
تو گوادر والوں کے لیے خوشخبری ہے کہ روزگار کے مواقع آئیں گے، اور شاید اب "گوادر والے کراچی والوں” کو طعنے دینے کے بجائے اپنی بندرگاہ پر فخر کریں گے۔ حکومت نے گوادر کی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے فزیبلٹی اسٹڈیز اور ٹرانس شپمنٹ اقدامات پر زور دیا تاکہ یہ خطہ بھی پاکستان کے معاشی نقشے پر اپنی جگہ بنا سکے۔
وزیر اعظم نے واضح ہدایت دی ہے کہ بندرگاہ کے استعمال سے متعلق ماہانہ رپورٹس پیش کی جائیں تاکہ ترقی کے سفر پر نظر رکھی جا سکے۔ اگر سب کچھ منصوبے کے مطابق چلا تو گوادر جلد ہی ایک عالمی تجارتی مرکز کے طور پر اُبھرے گا۔
"چلو بھائی، گوادر کا پانی بھی میٹھا ہو جائے گا اور کاروبار کا نمک بھی!”
#UrduBusinessNews #CryptoNewsPakistan #LatestFinanceTrends #TechUpdatesPakistan #UrduCryptoNews #StockMarketUpdates #AIInPakistan #BlockchainNewsUrdu #PakistaniEconomyUpdates #InvestmentNewsUrdu