اسلام آباد: پاکستان کی خام خوراک کی برآمدات جولائی سے نومبر 2025 تک 2.64 بلین ڈالر سے بڑھ کر 3.15 بلین ڈالر ہوگئیں، جو کہ 19.58 فیصد کا زبردست اضافہ ہے۔ اور ہاں، اس کا راز چاول کی برآمدات میں زبردست اضافہ ہے، جیسے پاکستانی پلاؤ میں مکھن!
خوراک کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہونے کے باوجود، خام خوراک کی برآمدات میں مسلسل 16 مہینوں سے ترقی جاری ہے۔ نتیجتاً، ملک کے بازاروں میں چینی، آٹا، اور دیگر خوراک کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو چکا ہے، جو صارفین کو "بھائی، کیا ہی قیمتیں ہیں!” کہنے پر مجبور کرتا ہے۔
اس کے بعد جمعرات کو رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان (REAP) کے نمائندے وزیر تجارت جام کمال اور وزیر فوڈ سیکیورٹی تنویر حسین کے ساتھ ملاقات کرنے آئے، تاکہ حکومت سے چاول کی برآمدات کے لیے مزید مدد حاصل کر سکیں۔
چاول نے پاکستان کی مجموعی خوراک کی برآمدات میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ مالی سال 2025 کے پہلے پانچ مہینوں میں چاول کی برآمدات 35.40 فیصد بڑھ کر 1.52 بلین ڈالر تک پہنچ گئیں۔ اور اگر آپ باسمتی چاول کی بات کریں تو اس کی ترسیل میں 34.64 فیصد کا اضافہ ہوا، اور قیمتوں میں بھی 51.34 فیصد کا زبردست اضافہ ہو چکا ہے۔ غیر باسمتی چاول کی برآمدات میں بھی 35.92 فیصد کا اضافہ ہوا، جو ایک اور "واہ!” کا موقع ہے۔
سرکاری اعلان کے مطابق، وزیروں نے برآمد کنندگان کو یقین دلایا کہ ان کے مسائل حل کیے جائیں گے اور خوراک کی برآمدات کے لیے ایک آسان راستہ بنایا جائے گا۔ وزیر کمال نے چاول کے برآمد کنندگان کی تعریف کی، جنہوں نے بھارت کی جانب سے چاول کی برآمدات کو دوبارہ کھولنے اور قیمتوں پر کنٹرول کی حدیں ہٹانے کے باوجود اپنی مارکیٹ کی پوزیشن کو برقرار رکھا۔
اب بات کرتے ہیں باسمتی چاول کی اوسط قیمت کی جو دو سالوں میں 150 روپے سے بڑھ کر 400 روپے فی کلو تک جا پہنچی ہے، جس کا مطلب یہ ہوا کہ گھریلو صارفین نے چاول کو اپنی "چیز” سمجھنا بند کر دیا ہے۔
وزیر تنویر نے برآمد کنندگان کو یقین دلایا کہ حکومت جلد ہی برآمدات میں رکاوٹ بننے والے قوانین اور مسائل کو حل کرے گی۔ وزیر تجارت نے وعدہ کیا کہ 15 جنوری 2025 تک تمام برآمدی آرڈرز مکمل کیے جائیں گے، اور طویل مدتی قوانین بھی تیار کیے جائیں گے۔
پچھلے دو سالوں میں مسلسل اضافے کی وجہ سے باسمتی چاول کی قیمت 150 روپے سے بڑھ کر 400 روپے فی کلو ہو گئی، جس کی وجہ سے گھریلو خریداری میں کمی آئی۔
پی بی ایس کے مطابق، چینی کی برآمدات 353,530 ٹن تک پہنچ گئیں، جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 33,101 ٹن تھیں، یعنی 968 فیصد کا ایڈوانس! زیادہ تر چینی افغانستان کو برآمد کی گئی ہے، "وہاں چینی والے دکانوں کی صف میں فریش ہے۔”
پچھلے سال کے مقابلے میں 5MFY25 میں گوشت کی برآمدات میں 2.80 فیصد کا اضافہ ہوا۔ نئی منڈیوں کے کھلنے، نئی کمپنیوں کی شرکت اور مذبح خانوں کی منظوری نے اس اضافے میں اہم کردار ادا کیا۔
مقامی مارکیٹ میں گوشت کی قیمتوں میں بھی بے تحاشہ اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ تین سالوں میں بھینس کے گوشت کی اوسط قیمت 700 روپے فی کلو سے بڑھ کر 1400 روپے تک جا پہنچی ہے، اور چکن بھی "عید کا گوشت” بن چکا ہے۔
ایک سال پہلے کے مقابلے میں جولائی سے نومبر 2025 تک سبزیوں، خاص طور پر پیاز کی برآمدات میں 24.88 فیصد کا اضافہ ہوا۔ اس دوران پھلوں کی برآمدات میں 3.47 فیصد کا اضافہ ہوا، اور مچھلی اور مچھلی کی مصنوعات کی برآمدات میں 0.21 فیصد کا معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ یار، مچھلی تو اب بھی ویسی ہی چل رہی ہے!
مزید تفصیلات
چاول سے چلنے والی خوراک کی برآمدات میں 20 فیصد اضافہ: ترقی اور لچک کی علامت
پاکستان کی زرعی برآمدات میں ایک زبردست تبدیلی آئی ہے، اور اس کا بڑا حصہ چاول کی برآمدات میں 20 فیصد اضافے کے باعث ہے۔ یہ اضافہ پاکستان کے فوڈ سیکٹر کی مجموعی ترقی کا حصہ ہے، جو عالمی اقتصادی چیلنجز اور داخلی افراط زر کے باوجود شاندار کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اس مضمون میں ہم اس اضافے کی وجوہات، اس کے اقتصادی اثرات، اور پاکستان کی برآمدات میں چاول کے اہم کردار کو تفصیل سے دیکھیں گے۔
چاول کی برآمدات کا بڑھتا ہوا حصہ
پاکستان کی چاول کی صنعت، خاص طور پر باسمتی چاول، اب ملکی برآمدات کا ایک اہم حصہ بن چکی ہے۔ مالی سال 2025 کے پہلے پانچ مہینوں میں پاکستان کی چاول کی برآمدات 35.4 فیصد بڑھ کر 1.52 ارب ڈالر تک پہنچ گئیں۔ اس ترقی کا بڑا سبب باسمتی چاول کی برآمدات میں زبردست اضافہ ہے، جس میں 34.6 فیصد اضافہ ہوا ہے اور اس کی قیمت میں 51.3 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ اس اضافے نے ملک کے غیر ملکی زرِ مبادلہ کے ذخائر کو سہارا دیا ہے، جو عالمی اقتصادی بحران اور داخلی مالی مشکلات کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھے۔
باسمتی چاول، جو اپنی خوشبو، لمبی دانوں اور اعلیٰ معیار کے لیے جانا جاتا ہے، عالمی مارکیٹوں میں خاص طور پر مشرق وسطیٰ، یورپ اور شمالی امریکہ میں بہت مقبول ہے۔ پاکستانی باسمتی چاول کی قیمتوں میں مسابقتی فوائد اور اس کے معیار کی شہرت نے اسے ان مارکیٹوں میں مضبوط مقام حاصل کرنے میں مدد دی ہے، حالانکہ عالمی سطح پر چاول کی برآمدات میں مقابلہ بھی شدید ہے۔
عالمی اقتصادی عوامل اور بڑھتی ہوئی طلب
چاول کی برآمدات میں اضافے کے پیچھے کئی عالمی اور مقامی عوامل کارفرما ہیں۔ سب سے پہلے، باسمتی چاول کی طلب میں مسلسل اضافہ ہوا ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جو زیادہ تر خوراک درآمد کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر، مشرق وسطیٰ، جو پاکستان کا سب سے بڑا چاول درآمد کنندہ ہے، کی مارکیٹوں میں چاول کی مانگ ابھی تک مضبوط رہی ہے، حالانکہ وبا کے باعث سپلائی چین میں خلل آیا تھا۔
اس کے علاوہ، بھارت جیسے دیگر بڑے چاول پیدا کرنے والے ممالک میں مزدوروں کی کمی اور افراط زر کی وجہ سے چاول کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، جس سے پاکستانی چاول عالمی سطح پر زیادہ مسابقتی ہو گیا ہے۔ اس قیمت کے فائدے نے چاول کی برآمدات میں مزید اضافہ کیا ہے۔
پاکستان کے چاول کے برآمد کنندگان نے نئے مارکیٹوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے اور افغانستان اور افریقہ جیسے نئے خطوں میں چاول برآمد کرنا شروع کر دیا ہے۔ اس توسیع نے برآمدات میں اضافے میں مدد کی ہے اور پاکستان کو کسی ایک خطے پر انحصار کرنے سے بچایا ہے۔
چیلنجز کا سامنا
یہ اضافہ اپنی جگہ اہم ہے، لیکن چاول کی برآمدات کی صنعت کو کچھ چیلنجز کا بھی سامنا ہے۔ ملکی سطح پر افراط زر نے خوراک کے شعبے کو بری طرح متاثر کیا ہے، جس کی وجہ سے پیداوار، محنت، اور نقل و حمل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے مقامی سطح پر چاول کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوا ہے، جس کی وجہ سے گھریلو صارفین کے لیے چاول خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔ باسمتی چاول کی اوسط قیمت 150 روپے سے بڑھ کر 400 روپے فی کلو تک پہنچ گئی ہے۔
مزید یہ کہ عالمی سطح پر مقابلہ ابھی بھی شدید ہے، خاص طور پر بھارت اور تھائی لینڈ جیسے ممالک سے جو بھی اعلیٰ معیار کے چاول پیدا کرتے ہیں۔ پاکستان کو اپنی پوزیشن قائم رکھنے کے لیے اپنے پیداوار کے طریقے مزید بہتر کرنے ہوں گے اور چاول کی معیار کو برقرار رکھنا ہو گا۔
حکومتی حمایت اور مستقبل کے امکانات
چاول کے برآمد کنندگان کے لئے حکومت نے بھرپور حمایت کا وعدہ کیا ہے۔ پاکستان کے چاول کے برآمد کنندگان کی ایسوسی ایشن (REAP) نے وزارت تجارت کے ساتھ مل کر اس بات کو یقینی بنایا ہے کہ برآمد کنندگان کو عالمی مارکیٹ میں مقابلہ کرنے کے لیے تمام ضروری مدد ملے۔ وزیر تجارت اور وزیر فوڈ سیکیورٹی نے حالیہ ملاقاتوں میں برآمد کنندگان کے تحفظات دور کرنے اور برآمدات کو مزید بہتر بنانے کے لیے حکومتی اقدامات کا وعدہ کیا۔
پاکستان کی حکومت نے اس بات کا بھی یقین دلایا ہے کہ تمام برآمدی آرڈرز 15 جنوری 2025 تک مکمل کر دیے جائیں گے اور طویل مدتی قانون سازی بھی حتمی شکل دی جائے گی۔
نتیجہ
چاول کی برآمدات میں 20 فیصد اضافہ پاکستان کی زرعی صنعت کی لچک کا مظہر ہے۔ اگرچہ داخلی مشکلات اور عالمی اقتصادی بحرانوں کے باوجود چاول کی برآمدات نے نہ صرف ملکی معیشت کو سہارا دیا ہے بلکہ یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ پاکستان کی چاول کی صنعت عالمی سطح پر اپنے قدم جما چکی ہے۔ حکومت کی حمایت اور عالمی مارکیٹوں میں نئی حکمت عملیوں کی بدولت پاکستان کا چاول کا شعبہ مزید ترقی کی طرف گامزن ہے۔
#UrduBusinessNews #CryptoNewsPakistan #LatestFinanceTrends #TechUpdatesPakistan #UrduCryptoNews #StockMarketUpdates #AIInPakistan #BlockchainNewsUrdu #PakistaniEconomyUpdates #InvestmentNewsUrdu