حالیہ میں منظور کی گئی آئین کی 26ویں ترمیم نے نہ صرف عدالتی اختیارات پر گرما گرم بحث چھیڑی، بلکہ اس میں ایک اور شق بھی چھپی ہوئی تھی جو زیادہ توجہ حاصل نہیں کر پائی، اور وہ ہے 2028 تک ربا (سود) کے خاتمے کا منصوبہ۔ اب سوچیں، "سود کو ختم کرنا؟ پاکستان میں؟” یہ تو ایسا لگتا ہے جیسے کسی نے شیر کے دانت نکالنے کی بات کی ہو!
اس ترمیم سے پہلے، آئین کے آرٹیکل 38(f) میں ریاست کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ جلد از جلد سود کو ختم کرے، مگر اب اس ترمیم نے ایک مخصوص ڈیڈ لائن دے دی ہے: 1 جنوری 2028۔ یہ تبدیلی فیڈرل شریعت کورٹ (FSC) کے 2022 کے فیصلے کے بعد ہوئی، جس میں حکومت کو 31 دسمبر 2027 تک سود کے خاتمے کا حکم دیا گیا تھا۔ یہ حکومتی فیصلے کی ایک ایسی گونج تھی جس کے بعد اسٹیٹ بینک اور NBP نے اپیلیں واپس لے لیں، مگر نجی بینکوں کی اپیلیں ابھی تک چل رہی ہیں، جیسے کوئی "ٹائم پاس” کر رہا ہو!
اس ترمیم سے کئی سوالات اٹھتے ہیں: کیا پاکستان کی سود پر مبنی معیشت میں ربا سے پاک مالیاتی نظام ممکن ہے؟ یا یہ صرف عوامی جذبات کو تسکین دینے کا ایک "شاہی” چال ہے؟ اور اگر یہ تبدیلی صرف پالیسی کے اصول میں رکھی گئی ہے، تو اس کا کیا فائدہ؟ کیونکہ پالیسی کے اصول تو صرف وہ ہوتے ہیں جنہیں آپ چیلنج نہیں کر سکتے۔ یعنی اگر 2028 تک سود ختم نہ ہوا، تو بھی کوئی کچھ نہیں کر سکتا۔ "جی ہاں، ہم نے کہا تھا، لیکن آپ کو سمجھ نہیں آیا!”
اب، اس تبدیلی کا عملی پہلو حکومت کی حقیقت پسندانہ سوچ کو ظاہر کرتا ہے، خاص طور پر موجودہ اقتصادی حالات کو دیکھتے ہوئے، جہاں سود پر مبنی قرضے اور مالیاتی نظام اتنے جڑے ہوئے ہیں جیسے میاں بیوی کے رشتہ! سوال یہ ہے کہ کیا سود کا مکمل خاتمہ واقعی ممکن ہے یا یہ صرف ایک "آگے بڑھنے کی” خواہش ہے؟
اسلامی بینکنگ کی بڑھتی ہوئی مانگ اور اس سے حاصل ہونے والے منافع سے یہ امید جتائی جا رہی ہے کہ پاکستان کا مالیاتی نظام 2028 تک ربا سے پاک بنانا ممکن ہو گا۔ لیکن کیا پاکستان میں یہ "چمچماتا” خواب حقیقت بن سکے گا؟ اس کے لیے حکومت کو اپنی "نیت” اور "عزم” دونوں ثابت کرنا ہوں گے!
2022 میں FSC کے فیصلے کے بعد اسٹیٹ بینک نے اسلامی اصولوں کے مطابق بینکاری کی طرف قدم بڑھایا ہے، اور بڑے بینک جیسے HBL نے 2027 تک اپنے آپریشنز کو اسلامی اصولوں کے مطابق ڈھالنے کے لیے شریعت کے مطابق بینکنگ شاخیں قائم کرنی شروع کر دی ہیں۔ تو بھائی، جو کچھ بھی ہو، بینکوں کی طرف سے تو "اسلامی” ہی چل رہا ہے!
اسلامی بینکنگ کا شعبہ 2002 سے مسلسل بڑھ رہا ہے، اور اسٹیٹ بینک نے 2022 میں اس شعبے کو مزید بڑھانے کے لیے نئے اقدامات کا آغاز کیا۔ اس کے ساتھ ہی، "میزان بینک” جیسے ادارے اپنے منافع کے حوالے سے بھی نظر آ رہے ہیں، اور ان کا منافع 88 فیصد تک بڑھ چکا ہے۔ بس یوں سمجھیں، اسلامی بینکاری کا کاروبار چل رہا ہے اور "بڑے منافع” بھی ہو رہے ہیں!
آخری بات، حکومت اور اسٹیٹ بینک کی اسلامی مالیات کے حوالے سے کی جانے والی کوششوں سے یہ امید کی جا رہی ہے کہ 2028 تک پاکستان کا مالیاتی نظام سود سے پاک ہو جائے گا۔ اسلامی بینکاری کے ادارے اس خواب کو حقیقت بنانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں، اور 26ویں ترمیم کی آئینی حمایت نے ان کی پوزیشن کو مزید مضبوط کیا ہے۔ اب صرف حکومت کی "سنجیدہ” کوششیں باقی ہیں۔
تو، بھئی، "ربا کا خاتمہ؟” یہ تو وقت ہی بتائے گا، مگر ہم سب کی دعائیں ان کے ساتھ ہیں!
مزید تفصیلات
فنانس: ربا کا خاتمہ — حقیقت کا خواب یا محض ایک خیالی بات؟
ربا (سود) کو مالیاتی نظام سے ختم کرنے کا تصور پاکستان اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک میں ایک ایسا موضوع ہے جس پر گہرے تبادلہ خیال ہوئے ہیں۔ اس خیال کی جڑیں اسلامی فنانس میں ہیں، جو ایک سود سے آزاد مالی ماحول تخلیق کرنے کی کوشش کرتی ہے تاکہ اسلامی اصولوں کے مطابق چل سکے۔ لیکن سوال یہ اٹھتا ہے: کیا ربا کا خاتمہ ایک حقیقی مقصد ہے یا صرف ایک خیالی بات؟ اس آرٹیکل میں ہم اس پیچیدہ مسئلے کو کھول کر سمجھیں گے کہ ربا کیا ہے، اسے ختم کرنے میں کن مشکلات کا سامنا ہے، اور آیا یہ مقصد حقیقت میں حاصل کیا جا سکتا ہے یا نہیں۔
ربا کیا ہے؟
اسلامی فنانس میں ربا اس عمل کو کہتے ہیں جس میں قرضوں پر سود لیا جائے یا کسی مالی لین دین میں بغیر کسی حقیقی مال یا خدمت کے اضافہ کیا جائے۔ لفظ ربا عربی زبان کے لفظ "ر-ب-و” سے نکلا ہے، جس کا مطلب ہے "اضافہ کرنا” یا "بڑھانا”۔ تاہم، اسلامی قوانین میں ربا کا مفہوم بہت محدود اور خاص ہے: یہ وہ ہر اضافہ ہے جو قرضوں پر سود کے ذریعے حاصل ہو۔
اسلامی تعلیمات میں ربا کی کھلے عام ممانعت کی گئی ہے کیونکہ یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ معاشرتی انصاف، منصفانہ تعلقات اور انسانی فلاح کے مخالف ہے۔ قرآن اور حدیث میں کئی مقامات پر سود کو اخلاقی طور پر غلط اور معاشرتی طور پر نقصان دہ قرار دیا گیا ہے۔ اسلامی اصولوں کے مطابق، پیسہ وہ چیز نہیں ہونی چاہیے جس سے صرف مزید پیسہ کمایا جائے، بلکہ یہ تجارت، کاروبار اور سماجی ترقی کے لئے ایک ذریعہ ہونا چاہیے۔
قرآن مجید میں ہے:
"جو لوگ ربا کھاتے ہیں وہ قیامت کے دن اس طرح کھڑے ہوں گے جیسے شیطان نے انہیں جنون کی حالت میں جھٹکا دیا ہو۔ یہ اس لئے کہ وہ کہتے ہیں: ‘تجارت بھی ربا کی طرح ہے’ لیکن اللہ نے تجارت کو حلال اور ربا کو حرام کیا ہے۔” (القرآن 2:275)
ربا کی ممانعت کی وجہ یہ ہے کہ یہ قرض دینے والے اور قرض لینے والے کے درمیان عدم توازن پیدا کرتا ہے، جس سے ایک طرفہ فائدہ ہوتا ہے اور دوسری طرف کا شخص مالی طور پر دبا جاتا ہے، اس کے بغیر کہ اس کے درمیان کسی قسم کا خطرہ یا محنت شیئر کی جائے۔ اس کے برعکس، اسلامی مالیات میں خطرے کا اشتراک کیا جاتا ہے، جہاں منافع اور نقصان دونوں فریقوں کے درمیان بٹتے ہیں۔
خیالی بات کیا ہے؟
لفظ خیالی بات ایک ایسا منصوبہ، خیال یا امید ہے جو حقیقت میں قابل حصول نہیں ہوتا، یا جسے عملی طور پر پورا کرنا مشکل یا ناممکن ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسا مقصد جو نظر آتا تو بہت اچھا ہے، مگر حقیقت میں اسے حاصل کرنا بہت مشکل ہے۔ اس اصطلاح کا آغاز ان لوگوں سے ہوا تھا جو چرس یا افیون کے نشے میں مبتلا ہوتے تھے اور غیر حقیقت پسندانہ خیالات رکھتے تھے۔ اس پس منظر میں، جب ہم ربا کے خاتمے کو خیالی بات کہتے ہیں تو ہم یہ فرض کرتے ہیں کہ یہ ایسا مقصد ہے جو نظر آتا تو اچھا ہے لیکن حقیقت میں حاصل کرنا مشکل ہے۔
حقیقی مقصد کیا ہے؟
حقیقی مقصد وہ ہوتا ہے جسے عملی طور پر حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اس میں حقیقت پسندی، ٹھوس قدم اور دستیاب وسائل کی بنیاد پر کامیابی کی امید ہوتی ہے۔ یہ وہ مقصد ہے جو ایک منصوبہ بندی، محنت اور حکمت عملی کے ساتھ ممکن ہے۔ خیالی بات کے برعکس، حقیقی مقصد ایک ایسا مقصد ہے جس کی سمت واضح ہو، اس کے حصول کے لیے عملی اقدامات اٹھائے جا سکتے ہوں، اور یہ حقیقت میں حاصل کیا جا سکتا ہو۔
جب ہم ربا کے خاتمے کی بات کرتے ہیں، تو یہ ایک حقیقی مقصد تب بن سکتا ہے جب اس کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جائیں، قوانین وضع کیے جائیں، اور اداروں کی حمایت حاصل کی جائے تاکہ ایسا مالیاتی نظام قائم کیا جا سکے جو اسلامی اصولوں کے مطابق ہو۔
ربا کے خاتمے کی مشکلات
ربا کو مالیاتی نظام سے ختم کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے، خاص طور پر آج کی دنیا میں جہاں ہر چیز ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہے اور عالمی مالیاتی نظام سود پر مبنی ہے۔ عالمی مالیاتی نظام میں سود کی بنیاد پر قرضے، سرمایہ کاری، اور مالیاتی لین دین ہوتے ہیں۔ ایک سود سے آزاد نظام کی طرف منتقلی میں کئی مشکلات پیش آتی ہیں:
1. عالمی مالیاتی نظام کا گہرا انضمام
عالمی مالیاتی نظام بنیادی طور پر سود پر مبنی ہے۔ بینک سود پر قرض دیتے ہیں، لوگ اور کاروبار سود پر قرض لیتے ہیں، اور ممالک سود کے ساتھ بانڈز جاری کرتے ہیں۔ یہ نظام عالمی اقتصادیات کا ایک لازمی جزو ہے۔ ربا کے خاتمے کا مطلب ہے کہ ایک ایسا نظام قائم کرنا جو مکمل طور پر اسلامی مالی اصولوں پر مبنی ہو، جہاں پیسہ صرف تجارتی سرگرمیوں اور پروڈکٹیو کاروبار کے لیے استعمال ہو، نہ کہ سود کے ذریعے پیسہ کمانے کے لیے۔
2. اداروں کی مزاحمت
کئی موجودہ مالی ادارے جیسے تجارتی بینک اور سرمایہ کاری کمپنیاں سود پر مبنی مصنوعات میں بڑی مقدار میں سرمایہ کاری کرتی ہیں۔ اس نظام کو تبدیل کرنا اداروں کی مزاحمت کا سامنا کرے گا، جس میں قانونی، ضوابطی اور عملی مشکلات شامل ہیں۔ مثال کے طور پر، تجارتی بینک سود کی آمدنی پر انحصار کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے منافع کو برقرار رکھ سکیں۔ سود سے آزاد نظام کی طرف منتقلی کے لیے ان کے کاروباری ماڈلز کی مکمل تبدیلی ضروری ہوگی۔
3. آگاہی اور سمجھ کی کمی
عام لوگوں، مالی ماہرین اور پالیسی سازوں میں اسلامی فنانس کے اصولوں سے متعلق آگاہی اور سمجھ کی کمی بھی ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ ربا سے آزاد مالیاتی نظام کے لیے ایسے شریعت کے مطابق مالی مصنوعات جیسے سکک (اسلامی بانڈز)، مضاربت (منافع کی تقسیم کے معاہدے) اور مربحہ (قیمت پر اضافے کا قرضہ) کی ضرورت ہے۔ اگر عوام، بینکار اور حکومتی ادارے ان مصنوعات کے بارے میں آگاہ نہ ہوں تو ربا سے آزاد نظام کی طرف منتقلی مشکل ہو جائے گی۔
4. عالمی مالیاتی اداروں کا کردار
پاکستان اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک عالمی مالیاتی نظام میں گہرائی سے جڑے ہوئے ہیں جو کہ سود پر مبنی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے جیسے کہ ورلڈ بینک اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) بھی ربا کے تحت کام کرتے ہیں۔ ربا کے خاتمے کی طرف منتقلی عالمی اداروں کے ساتھ کشیدگی پیدا کر سکتی ہے، خاص طور پر جب بات قرضوں یا مالی امداد کی ہو، جو عموماً سود پر مبنی ہوتی ہیں۔
5. معاشی نتائج
ربا کے خاتمے کے معاشی نتائج بھی سنگین ہو سکتے ہیں۔ بہت سے کاروبار اور افراد قرضوں پر انحصار کرتے ہیں، اور سود سے آزاد قرضوں کا آپشن ختم ہونے سے ان کا مالیاتی نظام متاثر ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، بعض لوگ یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ اس تبدیلی سے معاشی استحکام کو نقصان پہنچ سکتا ہے، کم از کم مختصر مدت میں۔
کیا ربا کا خاتمہ ایک حقیقی مقصد ہے؟
ان تمام چیلنجز کے باوجود، ربا کا خاتمہ مکمل طور پر ایک خیالی بات نہیں ہے۔ اگر ٹھوس پالیسیاں، قانونی ڈھانچے اور اداروں کی حمایت ہو تو اسلامی مالیاتی نظام کی طرف بڑھنا ممکن ہے۔ چند ممالک جیسے ملائشیا، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس راستے پر خاطر خواہ پیش رفت کی ہے اور انہوں نے اسلامی بینکنگ نظام قائم کیا ہے جو روایتی بینکنگ نظام کے ساتھ چل رہا ہے۔ ان ممالک نے اسلامی مالیات کے ضوابط وضع کیے ہیں، شریعت کے مطابق مالی مصنوعات تیار کی ہیں، اور لوگوں اور کاروباروں کو سود سے آزاد مالی خدمات اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے۔
پاکستان میں بھی حکومت نے اپنے مالیاتی نظام کو اسلامی اصولوں کے مطابق بنانے کے لیے کچھ اقدامات اٹھائے ہیں، خصوصاً بعد ازاں وفاقی شریعت عدالت کے 2022 کے فیصلے کے بعد جس میں 2027 تک ربا کے خاتمے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ اسلامی بینکنگ کے شعبے میں تیزی سے ترقی دیکھنے کو ملی ہے، اور سکک بانڈز اور اسلامی میوچل فنڈز بھی مقبول ہو رہے ہیں۔
مزید یہ کہ شریعت کے مطابق مالی مصنوعات کی بڑھتی ہوئی مقبولیت اور عالمی سطح پر اسلامی بینکاری کے نظام کا فروغ اس بات کا غماز ہے کہ ربا کا خاتمہ ایک حقیقی مقصد بن سکتا ہے، بشرطیکہ اس پر پائیدار طریقے سے کام کیا جائے اور عالمی مالیاتی برادری کی حمایت حاصل کی جائے۔
نتیجہ
آخرکار، ربا کا خاتمہ ایک حقیقی مقصد بن سکتا ہے، لیکن یہ ایک مشکل راستہ ہے جس میں ٹھوس حکمت عملی، عالمی تعاون اور معاشی استحکام کی ضرورت ہوگی۔ پاکستان اور دیگر مسلم اکثریتی ممالک میں ربا کے خاتمے کے لیے اب تک کے تجربات ایک روشنی کی کرن ہیں، لیکن اس مقصد کو حقیقت بنانے کے لیے مزید محنت اور حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ یہ سوال کہ کیا یہ حقیقت میں ممکن ہے یا نہیں، ایک دن اس کا جواب شاید ہمارے سامنے آ جائے۔ تب تک، یہ ایک خیالی بات سے کہیں زیادہ حقیقی مقصد بن سکتا ہے!