میزان بینک نے جمعرات کے روز سوشل میڈیا پر پھیلنے والی "ڈیٹا کی خلاف ورزی” کی افواہوں کو یکسر مسترد کر دیا، جو کہ اس کے ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز سے غیر مجاز لین دین کے بارے میں چل رہی تھیں۔
پچھلے ہفتے، سوشل میڈیا پر مختلف صارفین نے اپنی بینک اکاؤنٹس سے غیر مجاز لین دین کے بارے میں شکایات کیں، اور کہا کہ بڑی رقم ان کے علم میں لائے بغیر ان کے ڈیبٹ کارڈز سے چلی گئی۔ کچھ نے تو یہ تک کہہ دیا کہ "ڈیٹا لیک ہو گیا”، جیسے کوئی بالکل نیا ہالی وڈ تھرلر شروع ہو گیا ہو۔
میزان بینک نے اپنے کسٹمر ایڈوائزری میں کہا، "یہ تمام افواہیں بے بنیاد ہیں اور کسی قسم کی ڈیٹا کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔” اور تو اور، بینک نے صارفین کو یہ بھی یقین دلایا کہ ان کا ڈیٹا "ہمارے پاس مکمل طور پر محفوظ ہے”، جیسے بینک کی سیکیورٹی ایک مضبوط چھت کی طرح، جو کسی بھی طوفان سے محفوظ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
بینک نے مزید کہا کہ وہ متاثرہ صارفین کو جلد سے جلد معاوضہ دینے کے لیے ہر ممکن اقدام کر رہا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ ہر غیر محفوظ ای کامرس ٹرانزیکشن کو بین الاقوامی ادائیگی اسکیموں کے چارج بیک میکانزم کے تحت واپس کیا جا رہا ہے، تاکہ آپ کے پیسے واپس آپ کے جیب میں آجائیں۔
اب ذرا سنیے، اسلام آباد کے رہائشی ملک ذکا کا قصہ۔ انہوں نے فیس بک گروپ "وائس آف کسٹمر” پر اپنی شکایت شیئر کی، جس میں بتایا کہ ان کے میزان بینک کے ڈیبٹ کارڈ سے 2.1 ملین روپے کی متعدد غیر مجاز ٹرانزیکشنز ہوئیں۔ ذکا نے تو یہ واقعہ "انتہائی تشویشناک” قرار دیا اور بتایا کہ ان کے کارڈ سے ملائیشیا کی کرنسی میں سات ٹرانزیکشنز کی گئیں اور پھر وہ روپے میں بدل گئیں۔
"یہ وہ کارڈ تھے جو میں نے کبھی انٹرنیٹ بینکنگ کے لیے استعمال نہیں کیے،” ذکا نے کہا، جیسے ان کا کارڈ بھی اُن سے چھپ کر اپنی مرضی کے کام کر رہا ہو۔ انہوں نے اس معاملے کی اطلاع بینک کو دی، جس نے فوراً ان کے کارڈز بلاک کر دیے، اور جعلی سرگرمی کی بات کی۔
"میں نے کبھی انٹرنیٹ پر یا اے ٹی ایم پر بھی کارڈ استعمال نہیں کیا، تو پھر یہ کیسے ہوا؟” ذکا نے استفسار کیا، جیسے پورا بینک ہی ان کے پیچھے پڑا ہو۔
ذکا کے پیچھے ایک اور لاہور سے تعلق رکھنے والے صارف کا بھی واقعہ آیا۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے کارڈ سے 1.4 ملین روپے کی ٹرانزیکشنز ہوئیں، اور جب وہ بینک کو شکایت کرنے گئے تو یہ معاملہ حل بھی ہو گیا، لیکن انہوں نے کہا کہ "مجھے نہ تو پاس ورڈ موصول ہوا، نہ ہی کوئی پیغام، اور نہ ہی کسی قسم کی رسید۔” ان کا کہنا تھا، "اگر میرا کارڈ استعمال کیا گیا تھا تو رسید کیوں نہیں آئی؟”
تو، یہاں تک کہ بینک نے احتیاط برتنے کی بھی نصیحت دی ہے: "آن لائن خریداری کرتے وقت تھوڑی سی احتیاط لازمی ہے، ورنہ پچھتانا پڑ سکتا ہے۔” کیونکہ کبھی کبھی، آپ کے پیسے آپ سے اتنی جلدی نکلتے ہیں، جیسے آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا۔
میزان بینک کی اس کرنسی وار کے دوران ایک بات صاف ہو گئی ہے کہ آپ کا ڈیٹا اب تک محفوظ ہے، مگر اگلی بار جب آپ آن لائن خریداری کریں، تو تھوڑی سی ہوشیاری دکھائیں، ورنہ تو یوں سمجھیے جیسے آپ نے اپنی جیب خود ہی کھول رکھی ہو!
مزید تفصیلات
میزان بینک نے غیر مجاز لین دین کی اطلاعات کے بعد "ڈیٹا کی خلاف ورزی” کی تردید کر دی ہے، جو کہ اس کے ڈیبٹ اور کریڈٹ کارڈز سے کی جا رہی تھیں۔ یہ معاملہ اس وقت شروع ہوا جب سوشل میڈیا پر کچھ صارفین نے یہ شکایات کیں کہ ان کے اکاؤنٹس سے بڑی رقم ان کی مرضی کے بغیر منتقل کر دی گئی، اور کچھ نے تو اسے "ڈیٹا لیک” ہونے کا الزام بھی لگا دیا۔ لیکن میزان بینک نے ان سب افواہوں کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے اپنے صارفین کو یقین دلایا کہ ان کا ڈیٹا بالکل محفوظ ہے۔
غیر مجاز لین دین کے الزامات
یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب سوشل میڈیا پر بہت سے صارفین نے اپنی بینک اکاؤنٹس سے غیر مجاز لین دین کی اطلاع دی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے ڈیبٹ کارڈز سے بڑی رقم منتقل کی گئی، اور انھیں اس کا علم بھی نہیں ہوا۔ کچھ صارفین نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ یہ سب کچھ کسی "ڈیٹا لیک” کی وجہ سے ہوا۔
اسلام آباد کے رہائشی ملک ذکا نے فیس بک پر اپنی شکایت شیئر کی، جس میں انہوں نے بتایا کہ ان کے میزان بینک کے ڈیبٹ کارڈ سے 2.1 ملین روپے کی متعدد غیر مجاز ٹرانزیکشنز کی گئیں، جن میں سے سات ٹرانزیکشنز ملائیشیا کی کرنسی میں ہوئیں، اور پھر وہ پی کے آر میں تبدیل کر دی گئیں۔ ذکا نے تو یہ واقعہ "انتہائی تشویشناک” قرار دیا اور کہا کہ یہ ان کے انٹرنیٹ بینکنگ کارڈ کا استعمال نہیں تھا۔
بینک کا جواب: ڈیٹا کی خلاف ورزی نہیں ہوئی
میزان بینک نے فوری طور پر اس تمام صورتحال کا جواب دیا اور واضح طور پر کہا کہ ان کی سیکیورٹی سسٹم میں کوئی بھی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔ بینک نے اپنی کسٹمر ایڈوائزری میں کہا، "میزان بینک میں ڈیٹا کی خلاف ورزی کی افواہیں بے بنیاد ہیں۔” بینک نے مزید کہا کہ تمام صارفین کا ڈیٹا مکمل طور پر محفوظ ہے، اور کسی بھی قسم کی سیکیورٹی کی خلاف ورزی نہیں ہوئی۔
بینک نے یہ بھی بتایا کہ وہ ان تمام غیر محفوظ ای کامرس ٹرانزیکشنز کا پتہ لگا رہا ہے اور متاثرہ صارفین کو مکمل معاوضہ دیا جا رہا ہے۔ بینک کا کہنا تھا کہ یہ غیر محفوظ ٹرانزیکشنز بین الاقوامی ادائیگی اسکیموں کے چارج بیک میکانزم کے تحت واپس کی جا رہی ہیں، تاکہ صارفین کا پیسہ واپس اُن کی جیب میں آ جائے۔
ای کامرس سیکیورٹی کا مسئلہ
میزان بینک کا بیان ای کامرس سیکیورٹی کے اہم مسئلے کی طرف بھی اشارہ کرتا ہے۔ جیسے جیسے آن لائن خریداری کا رجحان بڑھ رہا ہے، ویسے ویسے سائبر کرائمز بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔ بینک کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ صرف میزان بینک کا نہیں، بلکہ دنیا بھر میں ہر وہ شخص جس نے کبھی انٹرنیٹ پر خریداری کی ہو، اسے اس قسم کے معاملات کا سامنا ہو سکتا ہے۔
میزان بینک نے اپنے صارفین کو مشورہ دیا کہ وہ آن لائن خریداری کرتے وقت احتیاط برتیں اور صرف محفوظ ویب سائٹس سے خریداری کریں۔ بینک نے یہ بھی کہا کہ دوہری تصدیق (two-factor authentication) کا استعمال کریں تاکہ ان کی آن لائن خریداری محفوظ رہے۔
صارفین کا تجربہ
بینک کے جواب کے باوجود، کچھ صارفین ابھی بھی اس واقعہ کو شک کی نظر سے دیکھ رہے ہیں۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے ایک صارف نے بتایا کہ ان کے کارڈ سے 1.4 ملین روپے کی ٹرانزیکشنز ہوئیں، اور انہیں اس کا پتہ بھی نہیں چلا، کیونکہ نہ تو انہوں نے کوئی پیغام یا پاس ورڈ موصول کیا تھا، اور نہ ہی کوئی رسید۔ وہ بھی یہ سوال اٹھا رہے تھے کہ "اگر میرے کارڈ سے لین دین کیا گیا تو رسید کیوں نہیں آئی؟”
نتیجہ
میزان بینک نے کہا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانے کے لیے تمام ضروری اقدامات کر رہا ہے کہ اس طرح کے واقعات آئندہ نہ ہوں۔ اس کے باوجود، صارفین کو احتیاط کی ضرورت ہے۔ آن لائن خریداری کرتے وقت تھوڑی سی ہوشیاری آپ کے پیسے بچا سکتی ہے، کیونکہ کبھی کبھی آپ کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ آپ کا پیسہ کہاں جا رہا ہے۔
لہذا، اگلی بار جب آپ اپنے کارڈ کو آن لائن استعمال کریں، تو اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کی خریداری محفوظ ہے، ورنہ تو سمجھ لیں جیسے آپ نے خود اپنی جیب کھول کر پیسہ نکال دیا ہو!
#UrduBusinessNews #CryptoNewsPakistan #LatestFinanceTrends #TechUpdatesPakistan #UrduCryptoNews #StockMarketUpdates #AIInPakistan #BlockchainNewsUrdu #PakistaniEconomyUpdates #InvestmentNewsUrdu