اسلام آباد:
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اور ٹیلی کام کا بدھ کے روز ہونے والا اجلاس کسی ڈیجیٹل فلم کے ڈرامائی سین سے کم نہیں تھا۔ جی ہاں، کمیٹی نے ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل کو مزید مشاورت کے لیے موخر کر دیا، حالانکہ ارکان نے گرما گرم بحث کے بعد اس پر تقریباً اتفاق کر لیا تھا۔
کمیٹی کے چیئرمین، امین الحق، بل کے حمایتی نکلے، لیکن پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے ارکان کی تنقیدوں کی بارش میں بھی ان کا حوصلہ کم نہ ہوا۔ دوسری طرف، وزیر مملکت برائے آئی ٹی، شازہ فاطمہ خواجہ، نے کمال مہارت سے تنقید کے "پلے کارڈز” کے سامنے دلائل کے "پاور پوائنٹ” پیش کیے اور ارکان کے سوالات کے "وائرس” کو اپنی وضاحتوں کے "اینٹی وائرس” سے صاف کر دیا۔
پیپلز پارٹی کے ارکان، جن میں ڈاکٹر مہیش کمار، صادق علی میمن، اور شرمیلا فاروقی شامل ہیں، اجلاس سے پہلے مناسب دستاویزات فراہم نہ کرنے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ لیکن وزیر کی وضاحتوں کے بعد، وہ "اوکے” کے بٹن پر کلک کرتے ہوئے مشروط حمایت پر رضامند ہو گئے۔ شرمیلا فاروقی تو اجلاس کے بیچ میں ہی "سائن آؤٹ” کر گئیں اور واپسی پر مطالبہ کیا کہ یا تو بل کو موخر کریں یا فوری ووٹنگ کریں۔ ان کی واپسی پر ان کا پراسرار تبصرہ، "مجھے واپس بھیج دیا گیا ہے”، کسی جاسوسی ڈرامے کا منظر لگ رہا تھا!
پی ٹی آئی کے ارکان عمر ایوب اور شیر علی ارباب نے بل پر حکومت کی جلدبازی کو "ڈاؤن لوڈ ایラー” قرار دیا اور مطالبہ کیا کہ اسٹیک ہولڈرز اور ماہرین کے ساتھ مزید "ڈیٹا شیئرنگ” کی جائے۔ عمر ایوب نے شہریوں کی ڈیجیٹل سیکیورٹی پر خدشات کا بھی اظہار کیا، کہ کہیں یہ بل "فائر وال” کی بجائے "بلیک ہول” نہ بن جائے۔
وزیر مملکت، شازہ فاطمہ خواجہ، نے چین اور ہندوستان کی مثال دے کر قومی ڈیجیٹلائزیشن کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کا کہنا تھا، "اگر ہم نے ڈیجیٹلائز نہیں کیا تو ہم پتھر کے دور میں واپس جا سکتے ہیں، اور وہاں تو نہ انٹرنیٹ ہوگا نہ موبائل فون، صرف حقے اور دیسی گھی رہ جائیں گے!”
آئی ٹی سیکرٹری ضرار خان نے وضاحت کی کہ ڈیجیٹائزیشن ایک بین الادارہ جاتی مسئلہ ہے، اور نیشنل پارٹی کے ایم این اے پلین بلوچ نے جلدبازی میں قانون سازی کے خلاف خبردار کرتے ہوئے کہا، "ایسا نہ ہو کہ ہمارا پارلیمنٹ ایک بار پھر میم کا موضوع بن جائے!”
آخر میں، چیئرمین نے مزید مشاورت اور اتفاق رائے کے لیے بل کو موخر کرنے کا اعلان کیا۔ یوں، اجلاس ختم ہوا، لیکن سیاسی میدان میں ڈیجیٹلائزیشن کا ڈرامہ ابھی باقی ہے۔
مزید تفصیلات
ڈیجیٹل بل موخر: اتفاق کے باوجود فیصلہ ملتوی
اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے آئی ٹی اور ٹیلی کام کے اجلاس نے بدھ کے روز ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل پر ہنگامہ خیز بحث کے بعد اسے موخر کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب اراکین نے وسیع بحث کے بعد عارضی اتفاق کیا، مگر مزید مشاورت کے لیے وقت مانگا گیا۔
اجلاس، جو کمیٹی کے چیئرمین امین الحق کی زیر صدارت ہوا، ایک سیاسی ڈرامے کی شکل اختیار کر گیا۔ تلخ جملوں، جذباتی بیانات، اور حکمتِ عملی کے تحت ہونے والے فیصلوں نے سب کو حیران کر دیا۔ اگرچہ چیئرمین نے بل کی حمایت کی، مگر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے اراکین نے تیز رفتاری پر سوالات اٹھائے۔
اہم نکات
- شفافیت اور اسٹیک ہولڈرز کی شمولیت پر تحفظات
پی ٹی آئی کے اراکین، عمر ایوب اور شیر علی ارباب، نے حکومت کی جانب سے بل کو جلدی پاس کروانے کی کوششوں پر اعتراض کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ صنعت اور ماہرین کے ساتھ مشاورت کے بغیر یہ قانون سازی خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔ ایوب نے خاص طور پر ڈیجیٹل سیکیورٹی کے خطرات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اگر قانون سازی مکمل نہ ہوئی تو شہریوں کے ڈیٹا کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ - پیپلز پارٹی کی ملی جلی رائے
پیپلز پارٹی کے ڈاکٹر مہیش کمار، صادق میمن، اور شرمیلا فاروقی نے اجلاس سے پہلے ضروری دستاویزات فراہم نہ کرنے پر حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا۔ تاہم، وزیرِ مملکت برائے آئی ٹی شازہ فاطمہ خواجہ کی وضاحت کے بعد، انہوں نے مشروط حمایت کا عندیہ دیا۔ شرمیلا فاروقی کی "ڈرامائی انٹری اور ایگزٹ” نے اجلاس کو مزید دلچسپ بنا دیا۔ واپسی پر ان کا کہنا تھا، "مجھے دوبارہ بھیج دیا گیا ہے!” - جلدی اور احتیاط کے درمیان کشمکش
شازہ فاطمہ خواجہ نے بل کے حق میں پرجوش تقریر کرتے ہوئے کہا، "اگر ہم ڈیجیٹائز نہ ہوئے، تو دنیا ہمیں پتھر کے دور میں واپس دھکیل دے گی!” انہوں نے چین اور بھارت کی مثال دی، جو 15 سے 24 سال کے عرصے میں اپنی معیشتوں کو ڈیجیٹلائز کرنے میں کامیاب ہوئے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر دو دن کی تاخیر ہوئی تو یہ پارلیمنٹ سے منظوری میں مزید دو ماہ کی تاخیر پیدا کر سکتی ہے۔ - جلد بازی کے نقصانات پر انتباہ
نیشنل پارٹی کے ایم این اے پلین بلوچ نے حالیہ مدرسہ بل کے تنازعے کی مثال دیتے ہوئے خبردار کیا کہ اگر قانون سازی میں جلد بازی کی گئی، تو پارلیمنٹ کا وقار داؤ پر لگ سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، "ہمیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ پارلیمنٹ پھر مذاق نہ بنے۔”
آگے کیا ہوگا؟
کمیٹی کے چیئرمین امین الحق نے مزید مشاورت کے لیے بل کو موخر کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب آئندہ ہفتوں میں ماہرین اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت کی جائے گی تاکہ بل میں ترمیم کی جا سکے۔
خلاصہ
ڈیجیٹل نیشن پاکستان بل ایک انقلابی اقدام ہو سکتا ہے، جو پاکستان کو جدید ڈیجیٹل دور کے ساتھ ہم آہنگ کرے گا۔ تاہم، موجودہ سیاسی ماحول میں اس بل کی منظوری، احتیاط اور مشاورت کا تقاضا کرتی ہے۔ اگرچہ یہ بل عوامی خدمت اور ڈیجیٹل معیشت کو فروغ دے سکتا ہے، مگر اس کا درست نفاذ ہی اس کے مستقبل کا تعین کرے گا۔
"اب دیکھنا یہ ہے کہ پارلیمنٹ پتھر کے دور سے ڈیجیٹل دور میں منتقل ہوتی ہے، یا سیاست کے پتھر ہی بیچ میں آ جاتے ہیں!”
#UrduBusinessNews #CryptoNewsPakistan #LatestFinanceTrends #TechUpdatesPakistan #UrduCryptoNews #StockMarketUpdates #AIInPakistan #BlockchainNewsUrdu #PakistaniEconomyUpdates #InvestmentNewsUrdu