کبھی آپ نے سوچا ہے کہ اگر آپ اپنے ہونے والے بچوں کی ذہانت کو پہلے سے طے کر سکیں؟ سائنس فکشن فلموں میں ہم نے ایسا مستقبل دیکھا ہے، لیکن حقیقت میں ایک امریکی بایوٹیک کمپنی Heliospect Genomics نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ والدین کو یہ موقع فراہم کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کی ذہانت میں اضافہ کر سکیں۔ جینیاتی اسکریننگ کے ذریعے، والدین کو ایسا ایمبریو منتخب کرنے کی سہولت دی جا رہی ہے جس میں ذہانت کے امکانات زیادہ ہوں، اور کمپنی کا دعویٰ ہے کہ وہ بچوں کا IQ تقریباً 6 پوائنٹس تک بڑھا سکتے ہیں۔
لیکن کیا یہ ممکن ہے؟ کیا یہ عمل واقعی مؤثر ثابت ہو سکتا ہے؟ اور سب سے اہم بات، کیا یہ اخلاقی اور سماجی طور پر درست ہے؟ آئیے، اس موضوع پر تفصیل سے بات کرتے ہیں۔
جینیاتی اسکریننگ کیا ہے؟
جینیاتی اسکریننگ ایک پیچیدہ طبی عمل ہے جس میں ایمبریو کے جینز کا تجزیہ کیا جاتا ہے تاکہ ذہانت، صحت اور دیگر خصوصیات کی پیشنگوئی کی جا سکے۔ Heliospect Genomics کا دعویٰ ہے کہ وہ 100 ایمبریوز کا جینیاتی تجزیہ کر کے ایسا ایمبریو منتخب کر سکتے ہیں جس میں ذہانت کے امکانات زیادہ ہوں۔ یہ عمل IVF (In Vitro Fertilization) کے ذریعے کیا جاتا ہے، جہاں والدین کے جینز کو ملا کر ایمبریو تیار کیا جاتا ہے، اور پھر جینیاتی اسکریننگ کے ذریعے فیصلہ کیا جاتا ہے کہ کون سا ایمبریو ذہانت کے اعتبار سے بہتر ہوگا۔
یہ تکنیک، جسے Polygenic Scoring کہا جاتا ہے، جینیات کی بنیاد پر مختلف خوبیوں کی پیشنگوئی کرتی ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ کیا یہ عمل واقعی ذہانت بڑھانے میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے؟ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انسانی ذہانت بہت پیچیدہ ہوتی ہے اور اسے جینیات کے ذریعے مکمل طور پر کنٹرول کرنا مشکل ہے۔
ذہانت کا جینیاتی راز: کیا یہ ممکن ہے؟
ذہانت ایک پیچیدہ خوبی ہے جسے بہت سے عوامل متاثر کرتے ہیں، جن میں جینیات، تعلیم، ماحول اور پرورش شامل ہیں۔ اگرچہ جینیاتی اسکریننگ کے ذریعے ذہانت کے امکانات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ بچہ لازمی طور پر ذہین ہوگا۔ جاپان کی ایک تحقیق کے مطابق، ذہانت کی پیشنگوئی کرنا بہت مشکل ہے، کیونکہ یہ صرف ایک یا دو جینز کا نتیجہ نہیں ہوتی بلکہ کئی جینز اور عوامل کی مشترکہ کوشش ہے۔
اس کے علاوہ، ماہرینِ جینیات اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ذہانت کو جینیاتی طور پر کنٹرول کرنا نہ صرف مشکل ہے بلکہ اس کے نتائج میں بھی بہت زیادہ فرق آ سکتا ہے۔ ایک بچے میں وہی جینز بہتر ذہانت کا باعث بن سکتے ہیں، جبکہ دوسرے بچے میں یہ جینز زیادہ فرق نہیں ڈال سکتے۔ اسی لیے، Polygenic Scoring کے نتائج ہمیشہ درست نہیں ہوتے۔
کیا یہ واقعی کام کرے گا؟
اب تک جو سائنسی تحقیق سامنے آئی ہے، اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جینیاتی اسکریننگ ذہانت بڑھانے کا کوئی یقینی ذریعہ نہیں ہے۔ Heliospect Genomics کا دعویٰ ضرور ہے کہ ان کی ٹیکنالوجی بچوں کے IQ میں اضافہ کر سکتی ہے، لیکن یہ دعویٰ مکمل طور پر ثابت شدہ نہیں ہے۔ سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ انسانی ذہانت بہت پیچیدہ ہے اور اس کا تعلق نہ صرف جینیات سے بلکہ سماجی اور تعلیمی عوامل سے بھی ہوتا ہے۔
آپ خود سوچیں، کیا جینیاتی اسکریننگ بچے کو ڈاکٹر یا انجینئر بنا سکتی ہے؟ یا کیا صرف اچھے جینز ہونے سے بچہ اسکول میں سب سے زیادہ نمبر لے سکتا ہے؟ ماہرین کا ماننا ہے کہ ذہانت کے امکانات کو بہتر بنایا جا سکتا ہے، لیکن بچے کی کامیابی کا دارومدار صرف جینیات پر نہیں، بلکہ اس کی محنت، تعلیم اور پرورش پر بھی ہوتا ہے۔
اخلاقی مسائل: کیا یہ درست ہے؟
یہ سوال بھی بہت اہم ہے کہ جینیاتی اسکریننگ کا استعمال اخلاقی طور پر درست ہے یا نہیں؟ دنیا بھر میں اس موضوع پر بڑے پیمانے پر بحث جاری ہے، اور بہت سے سائنسدان اور اخلاقی ماہرین اس تکنیک کے استعمال پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ "Designer Babies” کا تصور، جہاں والدین اپنے بچوں کی خصوصیات جیسے ذہانت، قد، یا شکل کا انتخاب کر سکیں، معاشرتی ناانصافیوں کو فروغ دے سکتا ہے۔
مثال کے طور پر، اگر صرف امیر افراد اس ٹیکنالوجی کا استعمال کر سکیں، تو کیا یہ طبقاتی فرق کو بڑھانے کا سبب نہیں بنے گا؟ کیا یہ ممکن نہیں کہ مستقبل میں صرف وہی بچے ذہین سمجھے جائیں گے جن کے والدین نے ان کے جینز کو "بہتر” بنایا ہوگا؟ کیٹی ہاسن، جو کیلی فورنیا کے سینٹر فار جینیٹکس اینڈ سوسائٹی کی ڈائریکٹر ہیں، کہتی ہیں کہ یہ "اعلیٰ” اور "کمتر” جینیات کا نظریہ فروغ دے سکتا ہے، جو معاشرتی طور پر نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔
معاشرتی اور اقتصادی پہلو
جینیاتی اسکریننگ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہ صرف امیر طبقے تک محدود ہو سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف وہ والدین جو مالی لحاظ سے مستحکم ہیں، اپنے بچوں کے جینز کو بہتر بنانے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے، جبکہ غریب والدین کے پاس یہ اختیار نہیں ہوگا۔ یہ عمل مستقبل میں طبقاتی فرق کو مزید گہرا کر سکتا ہے۔
پاکستان جیسے ممالک میں، جہاں پہلے ہی تعلیم اور صحت کی سہولیات میں فرق موجود ہے، اس طرح کی ٹیکنالوجی کی آمد سے یہ فرق اور بڑھ سکتا ہے۔ امیر طبقے کے بچے ذہین اور کامیاب سمجھے جائیں گے، جبکہ غریب طبقے کے بچے پیچھے رہ جائیں گے۔
کیا یہ پاکستانی قارئین کے لیے اہم ہے؟
اگرچہ اس وقت پاکستان میں جینیاتی اسکریننگ جیسی ٹیکنالوجی دستیاب نہیں ہے، لیکن دنیا میں ہونے والی یہ سائنسی ترقیات جلد یا بدیر ہمارے معاشرے کو بھی متاثر کر سکتی ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ جینیاتی ترقی کے معاشرتی اور اخلاقی پہلو کیا ہیں، اور یہ کہ اس کا استعمال کیسے کیا جا رہا ہے۔ یہ سائنسی ترقی ایک دن پاکستان کے والدین کے لیے بھی ایک سوال بن سکتی ہے: کیا ہم اپنے بچوں کی ذہانت کو "خرید” سکتے ہیں؟
نتیجہ: کیا جینیاتی اسکریننگ مستقبل کا حصہ ہے؟
آخر میں سوال یہ ہے کہ کیا جینیاتی اسکریننگ واقعی ذہانت بڑھانے کا ذریعہ بن سکتی ہے؟ یا یہ صرف سائنس فکشن کا ایک خواب ہے؟ ماہرین کا کہنا ہے کہ ابھی یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ ٹیکنالوجی کتنی مؤثر ہوگی۔ انسانی ذہانت کو مکمل طور پر جینیات کے ذریعے کنٹرول کرنا بہت مشکل ہے، اور یہ ایک بہت بڑا اخلاقی سوال بھی ہے۔
آپ کیا سوچتے ہیں؟ کیا جینیاتی اسکریننگ واقعی ذہین بچوں کی پیدائش کا ذریعہ بن سکتی ہے؟ یا یہ صرف امیروں کے لیے ایک اور سہولت ہے؟