کراچی:
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) اور تجارتی درآمد کنندگان نے ایف بی آر سے درخواست کی ہے کہ وہ بندرگاہوں پر کلیئرنس بیک لاگ کا مسئلہ فوراً حل کرے، ورنہ کاروبار کی حالت ایسی ہو جائے گی جیسے قہوہ کے بغیر چائے!
پاکستان کیمیکلز اینڈ ڈائز مرچنٹس ایسوسی ایشن (پی سی ڈی ایم اے) کے چیئرمین سلیم ولی محمد نے ایف بی آر کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال سے گزارش کی کہ کسٹم کلیئرنس میں تاخیر کو ختم کرنے کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں، کیونکہ اس سے درآمد کنندگان کو ڈیمریج اور ڈیٹینشن چارجز کا سامنا ہو سکتا ہے۔
انہوں نے ایف بی آر کے سربراہ سے یہ بھی کہا کہ روزانہ کی بنیاد پر درآمدی کنسائنمنٹس کی صورتحال پر نظر رکھی جائے تاکہ بیک لاگ کے حل کے لیے بروقت اقدام کیا جا سکے، ورنہ صورتحال ہو جائے گی جیسے مرغی کے انڈے میں ہلچل!
پی سی ڈی ایم اے کے چیئرمین نے فیس لیس کسٹمز کلیئرنس سسٹم کی اہمیت تسلیم کی، مگر ان کا کہنا تھا کہ اس پر عمل درآمد سے پہلے عملے کو اچھی طرح تربیت دینا ضروری تھا تاکہ بندرگاہوں پر پھنسے کنٹینرز کا بیک لاگ کم کیا جا سکے۔
اب بندرگاہوں پر ہزاروں کنٹینرز پھنسے ہوئے ہیں، اور سلیم ولی محمد نے کہا کہ کلیئرنس تک ہفتہ اور اتوار کو بھی خدمات جاری رکھی جانی چاہئیں تاکہ کام کا بوجھ کم کیا جا سکے۔
کے سی سی آئی کے صدر محمد جاوید بلوانی نے بھی بیک لاگ پر تشویش ظاہر کی اور کہا کہ حکام کو یہ فوراً حل کرنا چاہیے، ورنہ کاروباری برادری کا کیا حال ہو گا؟ بلوانی نے اس بات پر زور دیا کہ مختلف زمرے جیسے مینوفیکچررز، ایکسپورٹرز اور تجارتی درآمد کنندگان کے لیے الگ پروسیسنگ قطاریں بنائی جائیں، تاکہ ہر کسی کو بروقت کلیئرنس مل سکے، اور امتیازی سلوک بھی ختم ہو جائے۔
انہوں نے کہا کہ بندرگاہوں پر ابھرتی ہوئی صورتحال کو جنگی بنیادوں پر حل کرنا چاہیے، جیسے ٹرافی کے لیے کھیلنے والی کرکٹ ٹیم! اس میں بینکوں اور کسٹمز سمیت تمام سرگرمیاں شامل ہوں، اور ہفتہ اتوار کو بھی کام چلتا رہے۔
بلوانی نے آخر میں کہا کہ کلیئرنس کے عمل کے لیے ہفتہ اتوار کو بھی خدمات جاری رکھی جائیں، ورنہ بیک لاگ پاکستان کی صنعتی سرگرمیوں، برآمدات اور تجارتی سرگرمیوں کو ایسا متاثر کرے گا جیسے چمچ کی چمچ میں گم ہو جانا!
انہوں نے کہا، "ترجیحی اقدامات میں یہ ہونا چاہیے کہ سب کو برابر کا موقع ملے، رکاوٹوں کو دور کیا جائے، اور کسٹمز آپریشنز میں احتساب اور شفافیت کو بڑھایا جائے تاکہ کاروبار کی لاگت کم کی جا سکے۔”
مزید تفصیلات
پاکستان میں درآمد کنندگان نے حال ہی میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے درخواست کی ہے کہ وہ ملک کی بندرگاہوں پر جمع ہونے والے مال کی بھرمار کو فوراً حل کرے، کیونکہ یہ مسئلہ کاروبار اور تجارت کی دنیا میں تہلکہ مچا رہا ہے۔ بندرگاہوں پر موجود اس بیک لاگ کی وجہ سے درآمدات کی کلیئرنس میں تاخیر ہو رہی ہے، جس کا اثر پاکستان کے مختلف کاروباری شعبوں پر پڑ رہا ہے۔
کراچی کی بندرگاہ، جو پاکستان کے لیے اہم تجارتی دروازہ ہے، اس وقت ہزاروں کنٹینرز سے بھری ہوئی ہے۔ یہ کنٹینرز اس قدر پھنس چکے ہیں کہ کاروباری افراد کو ان کے لیے اضافی ڈیمریج چارجز اور ڈیٹینشن فیسز کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، جو پہلے ہی معاشی بحران سے نمٹتے ہوئے ان کے لیے ایک اور پریشانی بن چکی ہیں۔ ان اضافی اخراجات کا بوجھ خاص طور پر چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں پر پڑ رہا ہے، جو پہلے ہی کم منافع کے ساتھ چل رہے ہیں۔
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (کے سی سی آئی) اور پاکستان کیمیکلز اینڈ ڈائز مرچنٹس ایسوسی ایشن (پی سی ڈی ایم اے) جیسے تجارتی ادارے اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ ایف بی آر کو جلد از جلد اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے۔ انہوں نے ایف بی آر سے مطالبہ کیا کہ وہ کسٹم کلیئرنس کے عمل کو تیز کریں تاکہ مال کا بیک لاگ ختم کیا جا سکے، کیونکہ اگر یہ تاخیر برقرار رہی تو کاروباری سرگرمیاں اس حد تک متاثر ہو جائیں گی کہ کاروبار کو چائے میں چمچ ڈالتے وقت یاد آئے گا، "کہ یہ کیا ہو رہا ہے؟”
پی سی ڈی ایم اے کے چیئرمین سلیم ولی محمد نے ایف بی آر کے چیئرمین راشد محمود لنگڑیال سے درخواست کی کہ وہ کسٹم کلیئرنس کی تاخیر کو دور کرنے کے لیے فوری طور پر اقدامات کریں، کیونکہ اس سے نہ صرف کاروبار کو نقصان ہو رہا ہے بلکہ سپلائی چین بھی متاثر ہو رہی ہے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ روزانہ کی بنیاد پر درآمدی کنسائنمنٹس کی صورتحال کو مانیٹر کیا جائے تاکہ بیک لاگ کم کیا جا سکے۔ "اگر یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا تو پاکستان کی برآمدات کو بہت بڑا دھچکا لگے گا، اور صنعتوں کا کام رک جائے گا۔”
اس تمام صورتحال کو دیکھتے ہوئے، کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر محمد جاوید بلوانی نے بھی اپنے خدشات کا اظہار کیا اور کہا کہ حکام کو جلدی سے اس بیک لاگ کا حل نکالنا چاہیے۔ بلوانی نے تجویز دی کہ مختلف درآمد کنندگان کے لیے الگ الگ پروسیسنگ قطاریں قائم کی جائیں تاکہ مختلف شعبوں کو فوری طور پر پروسیس کیا جا سکے اور امتیازی سلوک ختم ہو سکے۔
انہوں نے کہا، "یہ بندرگاہ پر پھنسے کنٹینرز کی کہانی، اس وقت بالکل ایسے ہو گئی ہے جیسے انڈے میں مرغی! اس کا حل جنگی بنیادوں پر نکلنا چاہیے، اور ہمیں ہفتہ اور اتوار کو بھی بندرگاہ پر کام کرنا ہوگا، تاکہ اس بیک لاگ کو جلدی سے صاف کیا جا سکے۔”
بلوانی نے مزید کہا کہ کلیئرنس کی خدمات ہفتہ اور اتوار کو فعال رکھنا ضروری ہے، ورنہ پورے پاکستان کی صنعتی سرگرمیاں اور برآمدات بری طرح متاثر ہو جائیں گی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکام کو اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے مزید وسائل فراہم کرنے چاہیے اور کسٹمز کے عمل میں شفافیت کو بڑھانا چاہیے تاکہ کاروبار کے اخراجات میں کمی لائی جا سکے۔
اگر یہ مسئلہ جلد حل نہ ہوا تو پاکستان کی معیشت پر مزید بوجھ پڑے گا، اور تجارتی سرگرمیاں جیسے کہ چائے کی چمچ میں گم ہو جائیں گی! اس لیے ضروری ہے کہ ایف بی آر فوراً اس صورتحال کو حل کرے تاکہ پاکستان کے تجارتی شعبے کو اس بحران سے نکالا جا سکے۔
#BusinessTrendsPakistan #CryptoTradingTips #PakistaniStockMarket #UrduTechNews #DigitalEconomyPakistan #BitcoinPakistan #FinanceNewsPakistan #StartupTrendsUrdu #BlockchainBasics #UrduEconomicUpdates