لاہور:
فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے ریٹیل سیکٹر کو ٹیکس کے دائرے میں لانے کی کوششیں تو کی ہیں، مگر ابھی تک زیادہ کامیابی نہیں ملی۔ اس کے پیچھے کچھ خاص وجوہات ہیں، جن میں سے سب سے بڑی وجہ خوردہ فروشوں کی ہچکچاہٹ ہے۔
خوردہ فروشوں کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کی نیت پر شبہات ہیں، اور کئی دکانداروں کا کہنا ہے کہ "ہمیں رجسٹرڈ ریٹیلرز سے مشورہ دیا جا رہا ہے کہ ایف بی آر کے ریڈار پر نہ آئیں، کیونکہ اس سے صرف اضافی بوجھ بڑھے گا، اور حکام کے بے تکے مطالبات پورے کرنے پڑیں گے۔”
لاہور کے دکاندار خالد محمود کا کہنا تھا، "ہم ٹیکس دینے کے خلاف نہیں ہیں، مگر یہ نظام ہمارے جیسے چھوٹے کاروباروں کے لیے بہت پیچیدہ ہے۔ ہم بمشکل اپنے خاندانوں کا پیٹ پالتے ہیں، اضافی ٹیکس ادا کرنا مشکل ہے۔” تو بھائی، کس کے پاس اتنے پیسے ہیں، سب تو ٹِک ٹاک کی ویڈیوز بنانے میں لگے ہیں!
بہت سے خوردہ فروشوں کا خیال ہے کہ ٹیکس حکام ان کے لیے اضافی بوجھ ہیں، جس کی وجہ سے وہ ٹیکس نیٹ میں شامل ہونے سے بچنا چاہتے ہیں۔ علاوہ ازیں، انہیں رجسٹریشن کے فوائد یا اس کے پیچیدہ عمل کی پوری تفصیل بھی نہیں معلوم۔
"ابھی تک مہنگائی اتنی ہے کہ لوگ ایک روپے سے زیادہ خرچ کرنے کو تیار نہیں ہیں، تو ٹیکس کہاں سے آئے گا؟” ان کا کہنا تھا۔
حکومت کا موقف یہ ہے کہ وہ غیر رجسٹرڈ خوردہ فروشوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے پرعزم ہے۔ ایف بی آر نے ٹریڈ ایسوسی ایشنز کے نمائندوں کو شامل کرنے کی کوشش کی ہے، مگر نتائج ابھی تک اتنے حوصلہ افزا نہیں ہیں۔
پاکستان کا ریٹیل سیکٹر ملکی معیشت کا ایک بڑا حصہ ہے، جو نہ صرف ترقی میں کردار ادا کرتا ہے، بلکہ روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ یہ شعبہ ملکی جی ڈی پی کا تقریباً 18 فیصد ہے اور 16 فیصد سے زیادہ افرادی قوت کو ملازمت دیتا ہے۔
پاکستان بیورو آف شماریات کے مطابق، ریٹیل سیکٹر کا حجم سالانہ تقریباً 20 ٹریلین روپے ہے، اور ملک بھر میں تقریباً 3.7 ملین خوردہ فروش ہیں۔ تاہم، ان میں سے صرف 10-15 فیصد ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں، جبکہ باقی 85-90 فیصد ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔
ایف بی آر کے ایک اہلکار کا کہنا تھا، "یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے، جس کا حل ٹیکس نیٹ میں ان خوردہ فروشوں کو شامل کرنا ہے۔” انہوں نے تسلیم کیا کہ خوردہ فروشوں کے خدشات میں کچھ حقیقت ہے، مگر "ہم اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ "پاکستان کی معیشت میں خوردہ شعبے کی بے پناہ صلاحیت ہے، اور ہم ٹیکس کے نظام کو منصفانہ بنانے اور تعمیل کو آسان بنانے کے لیے اختراعی حل تلاش کر رہے ہیں۔”
دوسری طرف، ٹیکس ادا کرنے والے خوردہ فروش بھی خوش نہیں ہیں، کیونکہ انہیں غیر رجسٹرڈ خوردہ فروشوں سے غیر منصفانہ مسابقت، اضافی ٹیکس کا بوجھ اور مراعات کی کمی کا سامنا ہے۔
کراچی کے دکاندار علی عاشر نے کہا، "ہم اپنے ٹیکس سے قومی خزانے میں حصہ ڈال رہے ہیں، لیکن حکومت کو ایک منصفانہ ماحول فراہم کرنا چاہیے۔ غیر رجسٹرڈ خوردہ فروش ہمیں نقصان پہنچا سکتے ہیں کیونکہ وہ ٹیکس نیٹ سے باہر کام کرتے ہیں۔”
عاشر نے کہا کہ "رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ خوردہ فروشوں کے درمیان فرق واضح ہے۔ ہمیں ٹیکس بھرنا پڑتا ہے، اور وہ بغیر کسی پریشانی کے اپنا کام کرتے ہیں۔”
انہوں نے مزید کہا کہ اس شعبے کی مکمل صلاحیت کو بروئے کار لانے کے لیے حکومت کو ٹیکس رجسٹریشن کا عمل آسان بنانا ہوگا، تاکہ ٹیکس ادا کرنے والوں کو بھی فائدہ ہو۔
اگر ایف بی آر اپنے طریقہ کار کو بہتر نہیں کرتا، تو ٹیکس نیٹ کو بڑھانا بہت مشکل ہو جائے گا۔ تو، بھائی! سمجھ جاؤ، ورنہ ٹیکس کے ساتھ ساتھ ہمارے منہ بھی بند ہو جائیں گے!
مزید تفصیلات
پاکستان کے خوردہ فروشوں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ٹیکس کے دائرے میں لانے کی کوششوں میں ایک متوازن اور حقیقت پسندانہ طریقہ اپنائیں۔ اگرچہ حکومت اور ایف بی آر ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں کہ مزید خوردہ فروش ٹیکس کے نیٹ میں آئیں، لیکن اب بھی کئی خوردہ فروش اس معاملے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ اس پر خوردہ فروشوں کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کی نیت کچھ زیادہ اچھی نہیں لگتی۔
"ایف بی آر سے پنگا کیوں لیں؟”
خوردہ فروشوں کا ماننا ہے کہ ایف بی آر ان پر صرف اضافی بوجھ ڈالے گا اور ان کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ لاہور کے ایک دکاندار خالد محمود کا کہنا تھا، "ہم ٹیکس دینے کے خلاف نہیں ہیں، لیکن یہ سسٹم ہمارے جیسے چھوٹے کاروباروں کے لیے کافی پیچیدہ ہے۔ ہم بمشکل اپنے گھر والوں کو سنبھال پاتے ہیں، اور ٹیکس ادا کرنے کے لیے اضافی پیسے کہاں سے لائیں؟”
"ٹیکس کے فائدے؟ وہ تو کسی کو نہیں نظر آتے!”
ایک اور مسئلہ جو خوردہ فروشوں کو درپیش ہے وہ یہ ہے کہ انہیں ٹیکس رجسٹریشن کے فوائد کا مکمل علم نہیں ہے۔ بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رجسٹریشن سے صرف اضافی مسائل جنم لیتے ہیں۔ اسی لیے زیادہ تر خوردہ فروش ایف بی آر کے ریڈار سے دور رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ کچھ کہتے ہیں کہ "ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ ایف بی آر کے ساتھ رجسٹر ہو کر صرف مسئلے بڑھیں گے۔”
"مہنگائی کا ٹریک رک چکا ہے!”
خوردہ فروشوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک میں مہنگائی کا حال کچھ ایسا ہے کہ لوگ اپنی روزمرہ کی ضروریات کے لیے بھی تگ و دو کر رہے ہیں، اور ایسے میں حکومت سے مزید ٹیکس کا مطالبہ تھوڑا زیادہ لگتا ہے۔ خالد محمود نے کہا، "حکومت کہتی ہے کہ حالات بہتر ہو رہے ہیں، لیکن ہماری جیب میں کچھ نہیں آرہا۔ اضافی ٹیکس کہاں سے دیں؟”
"غیر رجسٹرڈ خوردہ فروشوں کے لیے زیادہ فائدہ!”
دوسری طرف، وہ خوردہ فروش جو ٹیکس کے نظام کا حصہ ہیں، انہیں یہ شکایت ہے کہ غیر رجسٹرڈ خوردہ فروش انہیں کاروباری طور پر نقصان پہنچا رہے ہیں۔ کراچی کے ایک خوردہ فروش علی عاشر کا کہنا تھا، "ہم ملک کے خزانے میں ٹیکس دے کر محنت کرتے ہیں، لیکن غیر رجسٹرڈ لوگ ہمیں پیچھے چھوڑ دیتے ہیں کیونکہ ان پر ٹیکس کا بوجھ نہیں۔”
"حکومت، تھوڑی عقل سے کام لو!”
علی عاشر نے مزید کہا، "ہم جیسے رجسٹرڈ خوردہ فروشوں کو وہی حق ملنا چاہیے جو غیر رجسٹرڈ کو مل رہا ہے۔ اگر حکومتی عمل کو تھوڑا آسان بنایا جائے اور رجسٹرڈ خوردہ فروشوں کو کچھ خاص فوائد دیے جائیں تو شاید یہ معاملہ آسان ہو جائے۔”
"ایف بی آر کو درست کر لو، ورنہ کچھ نہیں ہوگا!”
ایف بی آر کے ایک اہلکار نے یہ تسلیم کیا کہ خوردہ فروشوں کے خدشات میں کچھ حقیقت ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر ان مشکلات کو دور کرنے کے لیے کام کر رہا ہے تاکہ خوردہ فروشوں کو زیادہ تکلیف نہ ہو اور وہ اپنے کاروبار میں کامیاب ہو سکیں۔ لیکن اگر اس سسٹم میں جلدی اصلاحات نہ کی گئیں، تو ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا ایک مشکل کام بن جائے گا۔
"ٹیکس نیٹ میں لانے کا اصل مسئلہ”
پاکستان کی معیشت کے لیے خوردہ فروشوں کا کردار بہت اہم ہے، کیونکہ یہ شعبہ جی ڈی پی میں تقریباً 18 فیصد کا حصہ ڈالتا ہے اور ملک کی افرادی قوت کا 16 فیصد حصہ ملازمت فراہم کرتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود، پاکستان میں صرف 10 سے 15 فیصد خوردہ فروش ایف بی آر کے ساتھ رجسٹرڈ ہیں، یعنی 85 سے 90 فیصد ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں۔
"سب کا حق برابر ہونا چاہیے”
خوردہ فروشوں کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کو ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے جس میں سب کو برابر مواقع ملیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت ٹیکس کے رجسٹریشن کے عمل کو مزید آسان بنائے، تو زیادہ خوردہ فروش اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ٹیکس نیٹ میں اضافہ مشکل ہو جائے گا۔
نتیجہ:
خوردہ فروشوں کا کہنا ہے کہ ایف بی آر کو اپنے طریقہ کار کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے تاکہ وہ ان کے لیے ایک قابل قبول اور منصفانہ نظام فراہم کر سکے۔ اگر یہ اصلاحات نہیں کی گئیں تو ملک میں ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ایک چیلنج بن جائے گا۔