اسلام آباد:
پاکستان نے اپنے 300 میگاواٹ کے تیرتے سولر پاور پروجیکٹ کے لیے 300 ملین ڈالر کے قرض کی تجویز روک دی ہے، جو کہ ایک ماحول دوست اور سستا توانائی منصوبہ تھا۔ اس فیصلے سے، پچھلے ہفتے ایکسپریس ٹریبیون نے تصدیق کی کہ حکومت نے "ورلڈ بینک سے درخواست کی کہ تیرتے سولر پاور پروجیکٹ کی تیاری روک دی جائے”۔ یہ قدم 2024-2034 کے انڈیکیٹیو جنریشن کیپیسٹی ایکسپینشن پلان (IGCEP) میں اس اسکیم کو شامل نہ کرنے کے بعد اٹھایا گیا۔
پاور ڈویژن نے 20 دسمبر کو ورلڈ بینک اور وزارت اقتصادی امور کو آگاہ کیا کہ وہ اس پروجیکٹ سے پیچھے ہٹ رہے ہیں، اور یہ فیصلہ انہوں نے پلان کی آخری شکل کو دیکھتے ہوئے کیا۔ ان دستاویزات کے مطابق، اس پروجیکٹ کا غیر ملکی قرضہ 5 سال میں واپس کیا جا سکتا تھا اور اس کا بجلی کی پیداوار کا طریقہ موجودہ تھرمل پلانٹس سے کہیں سستا تھا۔
ایکنامک سیکریٹری ڈاکٹر کاظم نیاز کو لکھے گئے پاور ڈویژن کے میمورنڈم میں کہا گیا تھا، "ہم کسی ایسے پروجیکٹ کے لیے قرض کی سفارش نہیں کرتے جس میں بجلی کا خریدار نہ ہو، یعنی وہ CPPA-G (سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی- گارنٹی) نہیں ہو۔” واہ! لگتا ہے حکومت نے سستی اور ماحول دوست توانائی کے بجائے مزید مہنگے اور کمزور پلانٹس کی طرف رجوع کرنے کا فیصلہ کیا۔
یہ پروجیکٹ تربیلا اور غازی بروتھا ہائیڈرو پاور پراجیکٹس کے قریب ہونے کے باعث کسی نئی ٹرانسمیشن لائن کی ضرورت نہیں تھی۔ اس منصوبے کو نیشنل گرڈ سے مئی 2027 تک منسلک کرنے کا منصوبہ تھا، لیکن شاید حکومت کو چاند پر جانے کا خیال پسند آگیا!
دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ تیرتے سولر پراجیکٹس کی بجلی، 86 موجودہ تھرمل پاور پلانٹس کے آپریٹنگ لاگت سے بھی سستی تھی۔ اور 64 تھرمل آپشنز کے مقابلے میں 60 فیصد سستی! یعنی اگر یہ منصوبہ شروع ہوتا، تو پاکستان کے خزانے میں ایک بہت بڑا فائدہ ہوتا۔
مگر یہ سب کچھ تھرمل فیول امپورٹرز کی پکی دوستی کی وجہ سے نہیں ہو سکا، جو شاید ان کے لیے اچھا نہیں تھا۔ کیا اس کا مطلب ہے کہ سستی توانائی کے منصوبے کی جیت کے بجائے ہم پھر سے مہنگی توانائی کے پلانٹس کی راہ پر چلیں گے؟
دستاویزات میں یہ بھی کہا گیا کہ شمسی منصوبے کی اقتصادی شرح منافع (ERR) 42.4% تھی، اور اگر ماحولیاتی فوائد کو بھی شامل کیا جائے تو یہ بڑھ کر 51% تک پہنچ جاتی۔ اور کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس وقت میں جب پاکستان کے اکثر شہر سموگ میں ڈوبے ہوئے ہیں، یہ ماحول دوست پراجیکٹ اس وقت کی ضرورت تھا؟
واپڈا کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ اس منصوبے کی لاگت کو معقول حد تک کم کیا گیا تھا اور اگر اس کی عمر 30 سال بڑھائی جاتی تو ٹیرف مزید کم ہو کر 2.98 سینٹ فی یونٹ تک پہنچ سکتا تھا۔ یہ وہ قیمت ہے جو نہ صرف پاکستان کے لیے سستی ہے، بلکہ پورے خطے میں سب سے کم ہے۔ اس کا مطلب ہے، پاکستان کے لیے ‘چاندی’ والی بات!
لیکن فیصلہ یہی آیا کہ "ایسا نہیں ہو سکتا!”، اور اس پروجیکٹ کو روک دیا گیا۔ کیا حکومت کا مستقبل میں کسی دن اس پر نظر ثانی کرنے کا ارادہ ہے؟ یہ سوال ابھی کھلا ہے!
وزارت توانائی کا ردعمل
وزارت توانائی کے ترجمان نے کہا کہ حکومت توانائی کے شعبے میں کئی اہم تبدیلیوں سے گزر رہی ہے، اور اس وقت کچھ منصوبوں کو روکنے کا فیصلہ اس لیے کیا گیا تاکہ توانائی کی طلب اور مارکیٹ کے حالات کے مطابق صحیح فیصلے کیے جا سکیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر مستقبل میں ضرورت پڑی تو اس پروجیکٹ کو دوبارہ ترجیح دی جا سکتی ہے، اور ‘کچھ منصوبوں کا روکا جانا معمول کی بات ہے’۔
تو، یہ ایک معمہ بن گیا! پاکستان سستی اور ماحول دوست توانائی کے منصوبے سے کیوں پیچھے ہٹ گیا؟ شاید حکومت کو اس کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہوگی، تاکہ اس پروجیکٹ کو دوبارہ "سکائی” سے لے کر "زمین” پر لایا جا سکے!
مزید تفصیلات
حکومت کا 300 ملین ڈالر کا فلوٹنگ سولر منصوبہ منسوخ، تفصیلات اور سولر توانائی کی وضاحت
پاکستانی حکومت نے حال ہی میں اپنے 300 ملین ڈالر کے فلوٹنگ سولر منصوبے کو منسوخ کرنے کا اعلان کیا ہے، جو سالوں سے زیر غور تھا۔ یہ منصوبہ 300 میگاواٹ سولر پاور پیدا کرنے کا مقصد رکھتا تھا اور اس میں طربیلہ اور غازی بروتھا ہائیڈرو پاور پلانٹس جیسے ریزروائرز کی وسیع سطحوں پر سولر پینلز نصب کرنے کا ارادہ تھا۔ یہ فلوٹنگ پینلز زمین کے قیمتی وسائل کو استعمال کیے بغیر سولر توانائی حاصل کرنے کے لیے بنائے جانے تھے، جو ایک ماحول دوست اور پائیدار متبادل توانائی کے ذریعے توانائی کی ضروریات پوری کرنے کی ایک بہترین کوشش تھی۔
منصوبہ کیوں منسوخ کیا گیا؟
اس فلوٹنگ سولر منصوبے کو منسوخ کرنے کا فیصلہ پاکستان کی توانائی کی پالیسیوں کے لیے ایک بڑا دھچکا ثابت ہوا ہے۔ ابتدائی طور پر حکومت نے ورلڈ بینک سے اس منصوبے کے لیے مالی معاونت حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، مگر حالیہ اطلاعات کے مطابق یہ منصوبہ اس لیے منسوخ کیا گیا کیونکہ اسے ضروری منظوری اور حمایت حاصل نہ ہو سکی۔ ذرائع کے مطابق حکومت نے اس منصوبے کو منسوخ کرنے کا سبب یہ بتایا ہے کہ مرکزی توانائی خریداری ایجنسی (سی پی پی اے-جی) کا کوئی قابل اعتماد خریدار موجود نہیں ہے۔
یہ منصوبہ توانائی کی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے بہت فائدہ مند ثابت ہو سکتا تھا کیونکہ سولر توانائی کے اخراجات فوسل فیولز اور دوسرے روایتی توانائی ذرائع سے کم ہیں۔ اس منصوبے کی ممکنہ معاشی شرح منافع (ERR) تقریباً 42.4 فیصد تھی، اور جب ماحولیاتی فوائد کو شامل کیا جاتا، تو یہ 51 فیصد تک بڑھ سکتی تھی، جو پاکستان کے توانائی کے منظرنامے کے لیے ایک قیمتی اضافہ ثابت ہوتا۔
اس کے باوجود، منصوبہ حکومت کی موجودہ توانائی پالیسیوں سے ہم آہنگ نہیں تھا۔ پاکستان کی توانائی کا شعبہ اب بھی فوسل فیولز پر زیادہ انحصار کرتا ہے، اور بعض حلقے، خاص طور پر تھرمل فیول درآمد کرنے والوں نے یہ محسوس کیا کہ سستی اور قابل تجدید توانائی کے متعارف ہونے سے ان کی تجارت کو نقصان پہنچے گا۔ اس لیے حکومت نے روایتی توانائی کے منصوبوں کو ترجیح دی، حالانکہ قابل تجدید توانائی ایک طویل المدت حل فراہم کر سکتی تھی۔
فلوٹنگ سولر پینلز کیا ہیں؟
فلوٹنگ سولر پینلز یا "فلوٹوولٹکس” وہ سولر پینلز ہیں جو پانی کے جسموں جیسے جھیلوں، ریزروائرز یا سمندروں کی سطح پر نصب کیے جاتے ہیں۔ یہ پینلز پانی کی سطح پر لگی ہوئی فلوٹنگ اسٹرکچرز پر نصب کیے جاتے ہیں، اور سورج کی روشنی کو جذب کر کے برقی توانائی میں تبدیل کرنے کے لیے فوٹوولٹیک ایفیکٹ کا استعمال کرتے ہیں۔
یہ ٹیکنالوجی روایتی زمین پر مبنی سولر فارموں کے مقابلے میں کئی فوائد پیش کرتی ہے۔ سب سے پہلے، فلوٹنگ سولر پینلز کو وسیع زمین کی ضرورت نہیں ہوتی، جو زمین کی کمی والے علاقوں میں ایک اہم فائدہ ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ پانی کے جسموں سے قدرتی ٹھنڈک حاصل ہونے کی وجہ سے سولر پینلز کی کارکردگی اور پیداوار بڑھ جاتی ہے۔ اس کے علاوہ، فلوٹنگ پینلز پانی کے بخارات کو کم کرنے اور پانی کے معیار کو بہتر بنانے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں، جو ماحول کے لیے دوہرا فائدہ فراہم کرتا ہے۔
سولر توانائی کی تاریخ اور ایجاد
سولر توانائی کا تصور 19ویں صدی سے موجود ہے، لیکن اس کی عملی ترقی 1950 کی دہائی میں ہوئی۔ پہلا عملی سولر سیل ڈاکٹر گیرالڈ پیئرسن، ڈاکٹر ڈیرل چیپین، اور ڈاکٹر چارلس ایف. فلر نے بیل لیبز میں 1954 میں ایجاد کیا۔ یہ سلیکان پر مبنی سولر سیل تقریباً 6 فیصد کی کارکردگی کے ساتھ سورج کی روشنی کو برقی توانائی میں تبدیل کرنے میں کامیاب تھا۔ اس ایجاد کو جدید فوٹوولٹیک ٹیکنالوجی کی پیدائش کہا جا سکتا ہے۔
پہلا تجارتی سولر پینل 1950 کی دہائی میں خلائی ٹیکنالوجی کے لیے تیار کیا گیا تھا، لیکن سولر پینلز اس وقت تک زیادہ قیمتوں کی وجہ سے وسیع پیمانے پر دستیاب نہیں تھے۔ 1970 کی دہائی میں جب تحقیق اور تکنیکی ترقی نے ان کی قیمتوں کو کم کیا، سولر توانائی مزید قابل رسائی ہو گئی۔ 1990 کی دہائی میں سولر پینلز زیادہ سستے ہو گئے اور مختلف استعمالات میں ان کا استعمال شروع ہو گیا، جیسے کہ رہائشی چھتوں سے لے کر بڑے پیمانے پر سولر فارموں تک۔
حالیہ ترقیات اور سولر توانائی کا مستقبل
آج، سولر توانائی دنیا کے سب سے تیزی سے بڑھنے والے قابل تجدید توانائی کے ذرائع میں سے ایک بن چکی ہے۔ چین، بھارت، امریکہ، اور جرمنی جیسے ممالک نے سولر انفراسٹرکچر میں بھاری سرمایہ کاری کی ہے، اور سولر توانائی اب صاف اور پائیدار توانائی کے نظام کی منتقلی میں ایک اہم کھلاڑی سمجھی جاتی ہے۔ دراصل، سولر توانائی اتنی سستی اور مؤثر ہو گئی ہے کہ کئی خطوں میں یہ کوئلہ اور گیس سے سستی ہو چکی ہے، جو ملکوں کو فوسل فیولز پر انحصار کم کرنے اور موسمیاتی تبدیلی سے بچاؤ کے لیے ایک اہم موقع فراہم کرتی ہے۔
فلوٹنگ سولر ٹیکنالوجی اب بھی ابتدائی مرحلے میں ہے، لیکن اس میں بے شمار امکانات موجود ہیں۔ حکومتیں اور کمپنیاں اس پر تحقیق اور ترقی میں سرمایہ کاری کر رہی ہیں، اور ہم توقع کر سکتے ہیں کہ اس شعبے میں جلد مزید پیش رفت ہوگی۔ اگرچہ پاکستان کی حکومت نے اپنے 300 ملین ڈالر کے فلوٹنگ سولر منصوبے کو منسوخ کر دیا ہے، یہ واضح ہے کہ سولر توانائی کا مستقبل — چاہے وہ زمین پر ہو یا پانی پر — دنیا بھر میں قابل تجدید توانائی کے فروغ میں ایک مرکزی کردار ادا کرے گا۔
پاکستان کو اپنی توانائی کی ضروریات کے لیے سولر توانائی کے فوائد سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے اس طرح کے منصوبوں پر دوبارہ غور کرنا چاہیے، کیونکہ صاف، سستی اور پائیدار توانائی کے حل کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہو چکی ہے۔
#UrduTechnologyNews #GlobalCryptoTrends #FinanceForBeginners #PakistaniCryptoMarket #EconomicInsightsUrdu #TechStartupTrends #BusinessGrowthOpportunities #BlockchainForBusinesses #FutureOfInvestments #AIAndCryptoUpdates