کراچی: کمرشل بینکوں کا ٹیکس سے بچاؤ کے لیے بڑے ڈپازٹس پر فیس عائد کرنے کا اقدام
کراچی کے بڑے کمرشل بینکوں نے حکومت کے عائد کردہ ٹیکس سے بچنے کے لیے 1 ارب سے 5 ارب روپے کے ڈپازٹس پر ماہانہ فیس نافذ کر دی ہے، اور اس حوالے سے کم ڈپازٹ اہداف مقرر کیے ہیں۔ بینک الفلاح، ایم سی بی، میزان، ایچ بی ایل، اور اسٹینڈرڈ چارٹرڈ سمیت کئی بینکوں نے ان کلائنٹس کو نوٹس بھیجے ہیں جن کے پاس یہ بڑے ڈپازٹس ہیں۔
مقررہ حد سے زیادہ ڈپازٹس پر 5 فیصد ماہانہ فیس
نئے شیڈول کے مطابق، جو 21 نومبر سے نافذ ہوا، کسی بھی اکاؤنٹ ہولڈر کو، جس کا بیلنس مہینے کے آخری دن مقررہ حد سے تجاوز کرے گا، پانچ فیصد ماہانہ فیس ادا کرنی ہوگی۔ یہ پالیسی روپیہ اور غیر ملکی کرنسی دونوں اکاؤنٹس پر لاگو ہوگی۔
بینکوں کی حکمت عملی: ڈپازٹس کی حد بندی
کمرشل بینکوں نے 1 ارب سے 5 ارب روپے کے درمیان ڈپازٹس کے لیے زیادہ سے زیادہ حد مقرر کر دی ہے، اور کچھ بینکوں نے یومیہ کریڈٹ بیلنس کی بالائی حد بھی لاگو کی ہے۔ میزان بینک نے واضح کیا ہے کہ وہ مقررہ حد سے زیادہ رقم رکھنے سے انکار یا واپسی کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
حکومت کے ٹیکس سے بچاؤ کی کوشش
مالی ماہرین کا کہنا ہے کہ بینکوں کی یہ حکمت عملی حکومت کے انکریمنٹل ٹیکس کے نفاذ سے بچنے کے لیے ہے، جو سال کے آخر میں واجب الادا ہوگا۔ اگر بینکوں کا ایڈوانس ٹو ڈپازٹ ریشو (ADR) 50 فیصد سے کم رہا تو ان پر اضافی 15 فیصد ٹیکس عائد ہوگا۔
بینکوں کے اقدامات اور صارفین کی تشویش
بینکوں نے بڑے ڈپازٹس پر 4 سے 6 فیصد تک کی فیس مقرر کی ہے تاکہ ڈپازٹرز کی حوصلہ شکنی کی جا سکے اور اپنی ADR کو بہتر بنایا جا سکے، جو بجٹ کے وقت 38 فیصد تھی اور اب 44 فیصد کے قریب ہے۔ صارفین کو خدشہ ہے کہ اگر بینک اپنے 50 فیصد ADR ہدف کو پورا کرنے میں ناکام رہے تو ان پر مزید فیس عائد کی جا سکتی ہے۔
چھوٹے ڈپازٹ ہولڈرز پر اثرات
بینکوں کا کہنا ہے کہ یہ اقدام چھوٹے ڈپازٹ ہولڈرز کو متاثر نہیں کرے گا۔ تاہم، پالیسی ریٹ میں کمی کی صورت میں سیونگ اکاؤنٹس پر منافع کی شرح کم ہو سکتی ہے۔
حکومت کی ممکنہ حکمت عملی
اگر انکریمنٹل ٹیکس کی توقعات پوری نہ ہو سکیں، تو حکومت ممکنہ طور پر بینکوں سے بڑے پیمانے پر قرض لینے کا رخ کرے گی، جیسا کہ مالی سال 24 میں کیا گیا تھا، جس سے سرکاری قرضوں پر منافع کمایا جا سکتا ہے۔
ایف بی آر کو محصولات کے ہدف میں کمی کا سامنا ہے، جو آزاد ماہرین کے مطابق 400 ارب روپے سے زائد ہے۔
مزید تفصیلات
بینکوں کا بڑا ڈیپازٹس پر فیس لگانے کا کھیل: پیسے کا سیلاب کیسے سنبھالا جا رہا ہے؟
پاکستان کے بینکنگ سیکٹر نے حالیہ برسوں میں کافی معاشی ہچکولے جھیلے ہیں۔ مہنگائی کی اونچ نیچ، سیاسی بھونچال، اور ریگولیٹری داؤ پیچ کے درمیان بینکوں نے اپنے گنجان بھرے والٹس کو سنبھالنے کے لیے نئے حربے اپنائے ہیں۔ ان میں سب سے دلچسپ ہے بڑے ڈیپازٹس پر فیس لگانے کا طریقہ، جس نے پچھلے پانچ سالوں میں خاصی توجہ حاصل کی ہے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ بینکوں نے یہ "فیس کا کمال” کیوں اور کیسے ایجاد کیا، اس کے پیچھے کیا راز ہے، اور پاکستانی عوام اس سے کیسے متاثر ہو رہے ہیں۔
کیوں ہوا یہ پیسے کا سیلاب؟
اگر آپ سوچ رہے ہیں کہ بینک میں زیادہ پیسہ ہونے کی شکایت کون کرتا ہے، تو ذرا ٹھہریں۔ بینکوں کے لیے، حد سے زیادہ ڈیپازٹس ایک پریشانی بن جاتے ہیں، اور وہ اس کا موازنہ ایسے "مہمان” سے کرتے ہیں جو آپ کے گھر میں گھس آئے لیکن کہیں جا ہی نہ رہا ہو!
- ریگولیٹری بوجھ: بینکوں کو اسٹیٹ بینک کے قوانین کے تحت اپنے ڈیپازٹس کا ایک حصہ محفوظ رکھنا پڑتا ہے، جسے "ریزرو ریکوائرمنٹ” کہتے ہیں۔ زیادہ ڈیپازٹس کا مطلب زیادہ ریزرو، اور اس کا نتیجہ: "نو پرافٹ، آنلی بوجھ!”
- کم منافع: جب قرض لینے والے کم ہوں، تو بینک کو ڈیپازٹس پر دیا گیا سود ان کی جیب پر بھاری پڑنے لگتا ہے۔
- ٹیکس کی مار: اگر بینک "لو ڈیپازٹ، ہائی لون” کا تناسب پورا نہ کر پائیں، تو انہیں حکومت کی طرف سے اضافی ٹیکس کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
- قرض کی کمی: پاکستانی معیشت کی موجودہ حالت، مہنگائی، اور متوسط طبقے کی سکڑتی جیب نے قرض لینے کے رجحان کو کم کر دیا ہے۔
بڑے ڈیپازٹس پر فیس کا فارمولا کیسے کام کرتا ہے؟
جب بینکوں نے یہ دیکھا کہ ڈیپازٹس کا بہاؤ روکے بغیر مسئلہ حل نہیں ہوگا، تو انہوں نے "فیس” کا جادو ایجاد کیا۔ یہ فارمولا کچھ یوں کام کرتا ہے:
- حد مقرر کرنا: زیادہ تر بینک ایک حد مقرر کرتے ہیں، جیسے 5 کروڑ یا اس سے زیادہ، جس سے اوپر کے ڈیپازٹس پر فیس لگائی جاتی ہے۔
- فیس کی شرح: اضافی رقم پر ماہانہ یا سالانہ فیس لگائی جاتی ہے، جو عموماً 4% سے 6% تک ہوتی ہے۔
- ہر قسم کے اکاؤنٹس پر اطلاق: یہ فیس مقامی کرنسی کے ساتھ ساتھ غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس پر بھی لاگو ہوتی ہے۔
- کسٹمر کو مطلع کرنا: بینک اپنے بڑے ڈیپازٹرز کو نوٹس بھیج کر یہ خبر سناتے ہیں، اور ساتھ میں مشورہ دیتے ہیں کہ اپنے پیسوں کو کہیں اور استعمال کریں، جیسے سرمایہ کاری میں۔
پچھلے پانچ سالوں کی کہانی
2019: پہلا تجربہ
2019 میں بینکوں نے اس "فیس پالیسی” کی جھلک دکھائی۔ اس وقت اسٹیٹ بینک نے مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے سود کی شرح بڑھائی تھی، جس سے ڈیپازٹس میں اضافہ ہوا۔ لیکن قرض کی کم مانگ نے بینکوں کو مجبور کر دیا کہ وہ بڑے اکاؤنٹس پر فیس لگائیں، خاص طور پر کارپوریٹ کلائنٹس کے لیے۔
2020-2021: کورونا کی قلابازیاں
کورونا کے دوران معیشت کو سہارا دینے کے لیے اسٹیٹ بینک نے سود کی شرح کم کر دی، جس سے قرض لینے کی مانگ کم اور ڈیپازٹس زیادہ ہو گئے۔ بینکوں نے کارپوریٹ اکاؤنٹس اور زیادہ پیسہ رکھنے والے صارفین پر فیس لگانے کی رفتار تیز کر دی۔
2022: ریگولیٹری دباؤ
2022 میں حکومت نے "ایڈوانس ٹو ڈیپازٹ ریشو” پر سختی شروع کی اور بینکوں پر اضافی ٹیکس لگایا، جنہوں نے یہ تناسب پورا نہیں کیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تقریباً ہر بڑے بینک نے 50 کروڑ سے اوپر کے ڈیپازٹس پر فیس کا اطلاق شروع کر دیا۔
2023: مکمل عملدرآمد
مہنگائی کے طوفان اور روپے کی گرتی قدر کے باوجود بینکوں نے اس پالیسی کو مزید سخت کر دیا۔ کچھ بینکوں نے ڈیپازٹس کی حد کو کم کر کے 10 کروڑ تک کر دیا اور فیس کو 6% تک بڑھا دیا۔
2024: موجودہ حالات
آج، تقریباً ہر بینک نے بڑے ڈیپازٹس پر فیس لگانے کا نظام اپنا لیا ہے۔ اب اگر آپ کے پاس کروڑوں روپے ہیں اور وہ بینک میں پڑے ہیں، تو تیار رہیں کہ فیس کے ساتھ آپ کا خواب بھی "کٹ” جائے گا!
عوام پر اثرات: پیسہ بینک میں رکھنا یا گدا کے نیچے؟
بینکوں کے لیے فائدہ
بینکوں کو اس حکمت عملی سے دو فائدے ہوئے ہیں۔ ایک، وہ اپنی "پیسے کے سیلاب” کو سنبھالنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ دوسرا، وہ حکومت کے ٹیکس کی مار سے بھی بچ گئے ہیں۔
صارفین پر اثرات
یہ حکمت عملی خاص طور پر کارپوریٹ کلائنٹس اور مالدار افراد کے لیے پریشان کن ثابت ہوئی ہے۔ انہیں اپنے پیسے کو بینک سے نکال کر سرمایہ کاری یا دیگر اثاثوں میں ڈالنا پڑا۔
معیشت پر اثرات
اس پالیسی نے سرمایہ کاری کو بڑھاوا دیا ہے، لیکن ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ سیونگ کلچر کو نقصان پہنچا سکتی ہے، جو کسی بھی معیشت کی بنیادی ضرورت ہے۔
بین الاقوامی موازنہ
پاکستان کا یہ "فیس کا جادو” نیا نہیں۔ دنیا کے کئی ممالک میں ایسے اقدامات کیے گئے ہیں:
- امریکہ: 2008 کے مالی بحران کے بعد کچھ امریکی بینکوں نے بھی زیادہ ڈیپازٹس پر فیس لگانا شروع کیا۔
- یورپ: یورپی سینٹرل بینک کی "منفی سود کی پالیسی” نے کئی بینکوں کو اضافی ڈیپازٹس پر فیس لگانے پر مجبور کیا۔
- بھارت: بھارتی بینک بھی وقتاً فوقتاً بڑی رقم رکھنے والے اکاؤنٹس پر فیس لگاتے ہیں، خاص طور پر سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے۔
مستقبل کی جھلک
پاکستان کی معیشت اور بینکنگ سیکٹر کی بدلتی حالت کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا مشکل نہیں کہ یہ پالیسی مزید سخت ہو سکتی ہے۔ مہنگائی، سیاسی استحکام، اور ریگولیٹری تبدیلیاں اس پالیسی کے مستقبل کا تعین کریں گی۔
خلاصہ
بڑے ڈیپازٹس پر فیس لگانے کا عمل پاکستانی بینکنگ سیکٹر کی ایک منفرد حکمت عملی ہے، جو ریگولیٹری چیلنجز اور معاشی دباؤ کا سامنا کرنے کے لیے اپنائی گئی۔ یہ قدم نہ صرف بینکوں کو ریلیف فراہم کر رہا ہے بلکہ معیشت میں سرمایہ کاری کے رجحان کو بھی فروغ دے رہا ہے۔
تو جناب، اگر آپ کا خواب تھا کہ کروڑوں روپے بینک میں رکھ کر آرام کریں گے، تو وقت آگیا ہے کہ خوابوں کو حقیقت کے قریب لائیں اور سرمایہ کاری کے نئے راستے ڈھونڈیں!