ہندوستان اور چین کے درمیان کچھ عجیب و غریب مشابہتیں نظر آ رہی ہیں جو 2025 میں سرمایہ کاروں کے لیے بڑا سوال بن سکتی ہیں۔ مغربی پالیسی سازوں، CEOs اور سرمایہ کاروں نے سالوں سے یہ گپ شپ کی ہے کہ کیا ہندوستان اپنی فی کس جی ڈی پی اور عالمی مینوفیکچرنگ طاقت کے حوالے سے 18 ٹریلین ڈالر والے پڑوسی چین کی راہ پر چلنے کی صلاحیت رکھتا ہے؟ اب یہ موازنہ ممبئی کے مالیاتی حلقوں میں اور اُس سے بھی آگے، نئے رنگ اختیار کرتا جا رہا ہے۔
سب سے پہلی بات یہ کہ چین کے بارے میں عالمی رائے اب بدل رہی ہے۔ دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کی ترقی کی رفتار سست پڑ گئی ہے اور بیجنگ کا واشنگٹن کے ساتھ تعلقات میں بریک ڈانس چل رہا ہے۔ ان مسائل نے کورونا وبا کے بعد ہندوستان کے لیے سرمایہ کاری کا نیا سنہری موقع پیدا کیا ہے۔ لیکن اب سوال یہ ہے کہ کیا چین کی پیروی کرنا ہندوستان کے لیے اتنا فائدہ مند ثابت ہوگا؟ چین کے موجودہ حالات ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتے ہیں کہ شاید ہندوستان بھی کچھ پہلوؤں میں "چینی اسٹائل” اپنا رہا ہے!
اب بات کرتے ہیں ہندوستان کی معیشت کی رفتار کی۔ ہندوستان کی 4 ٹریلین ڈالر کی معیشت اچانک کسی "سستے” سیزن کا شکار ہو گئی ہے۔ ستمبر تک تین مہینوں میں جی ڈی پی کی ترقی 5.4 فیصد تک گر گئی، جو کہ سات سہ ماہیوں میں سب سے سست ہے، اور چین سے صرف 80 بیس پوائنٹس تیز ہے۔ وزیراعظم مودی کی حکومت کا یقین تھا کہ اگلی دہائی میں معیشت 6% سے 8% تک بڑھے گی، لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ خواب تھوڑا ڈسٹرب ہو گیا ہے۔ جیسے چین میں، ہندوستان میں بھی گھریلو مسائل ہیں، جیسے کمزور نجی کھپت، اور ان مسائل کو ٹھیک کرنا خاصا پیچیدہ ہے۔
اب ایک اور دلچسپ بات! دونوں ممالک کو بیرونی مشکلات کا سامنا ہے۔ امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیائی ملک پر تجارتی محصولات لگانے کی دھمکی دے ڈالی ہے، جیسے انہوں نے چین کے خلاف دی تھی۔ اور تو اور، ہندوستان کے امیر ترین شخص گوتم اڈانی بھی امریکی فرد جرم کا سامنا کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی ترقی کی رفتار تھوڑی سست ہو گئی ہے۔
اب، ٹائکون کی پریشانیوں نے ہندوستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری کی صورتحال کو "مچھلی کی طرح” ہلچل میں ڈال دیا ہے۔ عالمی کمپنیاں اب مقامی ہندوستانی کمپنیوں کے ساتھ شراکت داری کر رہی ہیں، جن میں کچھ طاقتور خاندان شامل ہیں۔ لیکن یہاں بھی، چینی مشترکہ منصوبوں کی طرح، کچھ نیا اور مشکل ہٹنے والا ہوسکتا ہے۔ فرانس کی ٹوٹل انرجی اڈانی گرین انرجی کے ساتھ شراکت داری میں ہے، جس کے قانونی مسائل بھی چل رہے ہیں۔
چین اور ہندوستان پر عالمی سطح پر مداخلت کا بھی الزام لگ رہا ہے۔ امریکہ چین کو روکنے کی کوشش کر رہا ہے اور ہندوستان کو بھی "مداخلت” کا الزام لگ رہا ہے۔ کینیڈا نے جون میں ہندوستان پر "غیر ملکی مداخلت” کا ٹھپہ لگایا، جو شاید زیادہ تر سیاسی گیمز کا حصہ ہو، لیکن اس سے سرمائے کے بھوکے ملک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
ایک اور دلچسپ موضوع ہے ہندوستان اور اس کے چھوٹے پڑوسیوں جیسے بنگلہ دیش، مالدیپ اور نیپال کے ساتھ تعلقات۔ ہندوستان اربوں ڈالر کی امداد فراہم کرتا ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ علاقائی طاقت کو بھی مستحکم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگرچہ مودی جی ہمیشہ کہتے ہیں کہ "ہندوستان سب کا دوست ہے”، لیکن بعض اوقات، یہ پڑوسیوں کے لیے تھوڑا مشکل ہو سکتا ہے۔
آخر میں، عالمی سطح پر سب کی نظریں ہندوستان پر ہیں، کیونکہ اگر ہندوستان ان ابھرتے ہوئے چیلنجز کا صحیح جواب دے دیتا ہے تو یہ ترقی کی راہ پر تیز گامزن ہو سکتا ہے، لیکن اگر سہی طریقے سے نہیں کیا تو عالمی سرمایہ کاروں کو شکوک کا سامنا کرنا پڑے گا۔ تو دیکھنا یہ ہے کہ ہندوستان کی گیم چینجنگ حکمت عملی کیا ہوتی ہے!
مزید تفصیلات
بھارت کا چین سے مشابہت اختیار کرنا، خاص طور پر ان طریقوں سے جو اتنے زیادہ خوش آئند نہیں ہیں، ایک اہم موضوع بن چکا ہے جس پر عالمی سرمایہ کار اور تجزیہ کار گہرائی سے بات کر رہے ہیں۔ دونوں ممالک کو بڑی آبادیوں، تیز رفتار اقتصادی ترقی اور عالمی اثر و رسوخ کے بڑھتے ہوئے امکانات کی وجہ سے طویل عرصے سے ایک دوسرے کے ساتھ موازنہ کیا جا رہا ہے۔ لیکن حالیہ حالات یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بھارت کو وہی چیلنجز اور مشکلات پیش آ رہی ہیں جو چین کو حالیہ برسوں میں پیش آئیں۔ یہ چیلنجز اقتصادی سست روی، سیاسی تناؤ، بیرونی دباؤ اور حکومتی مسائل سے جڑے ہوئے ہیں، جو بھارت کو اپنے مشرقی ہمسائے کے سامنے ایک غیر آرام دہ مشابہت کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
اقتصادی ترقی اور سست روی
طویل عرصے تک بھارت کو ایک روشن ابھرتی ہوئی مارکیٹ کے طور پر دیکھا گیا، جہاں بڑی ورک فورس، بڑھتی ہوئی ٹیکنالوجی کی صنعت اور ترقی پذیر متوسط طبقہ ملک کی ترقی کے لیے اہم عوامل سمجھے گئے۔ تاہم، اب بھارت کی اقتصادی کارکردگی میں سست روی کی علامات نظر آ رہی ہیں، جیسے چین کی معیشت میں آئی ہے۔ ملک کی جی ڈی پی کی نمو حالیہ سہ ماہی میں 5.4% تک سست ہو گئی ہے، جو پچھلے سات سہ ماہیوں میں سب سے کم رفتار ہے۔ یہ سست روی ایک سنگین مسئلہ بن گئی ہے، خاص طور پر اس وقت جب بھارت کی معیشت کی طاقت کا موازنہ چین سے کیا جا رہا تھا۔
جیسے چین کو دنیا کا فیکٹری سمجھا جاتا تھا، ویسا ہی بھارت کے بارے میں بھی کہا جا رہا تھا کہ وہ اس راستے پر چلنے جا رہا ہے۔ لیکن حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے۔ بھارت کے اندرونی مسائل، جیسے نجی کھپت میں کمی، اجرتوں کی عدم اضافہ اور کلیدی شعبوں میں پیداوار کی سست رفتاری، بھارت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔
سیاسی اور حکومتی چیلنجز
اب بھارت میں وہی سیاسی اور حکومتی چیلنجز نظر آ رہے ہیں جو چین میں ہیں۔ بھارت نے ہمیشہ اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے طور پر پیش کیا ہے، مگر حالیہ برسوں میں مرکزی حکومت کا اثر و رسوخ بڑھتا جا رہا ہے، جس کا موازنہ چین کی آمرانہ حکومت سے کیا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے میڈیا، سول سوسائٹی اور سیاسی اپوزیشن پر سختی بڑھائی ہے، جس سے بھارت میں جمہوری اصولوں کی پامالی کا خطرہ بڑھ رہا ہے۔
چین میں جہاں کمیونسٹ پارٹی کا مکمل کنٹرول ہے، وہاں بھارت میں بھی حکومتی اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے، جس سے سیاسی آزادیوں پر سوالات اٹھنے لگے ہیں۔ اس میں مزید یہ کہ، بھارت میں ایک فرد یا گروہ کے ذریعے فیصلے کرنے کا رجحان بڑھ رہا ہے، جو چین کی حکومت کے طریقوں سے ملتا جلتا ہے۔
بیرونی تعلقات اور خارجی دباؤ
بھارت کے بیرونی تعلقات بھی چین سے مشابہت اختیار کر رہے ہیں، خاص طور پر علاقائی تعلقات اور ہمسایہ ممالک کے ساتھ کشیدگی میں۔ چین کی جارحانہ خارجہ پالیسی اور عالمی تعلقات کے حوالے سے جو چیلنجز سامنے آئے ہیں، ویسے ہی بھارت کو بھی خطے میں کچھ اسی طرح کے مسائل درپیش ہیں۔ چین اور بھارت کے مابین سرحدی تنازعات نے بھارت کو ایک جغرافیائی سیاسی کشمکش میں دھکیل دیا ہے، جس کا اثر نہ صرف اس کے ہمسایہ ممالک بلکہ عالمی تعلقات پر بھی پڑ رہا ہے۔
بھارت کی بڑھتی ہوئی قربت امریکہ سے اور اس کی علاقائی پوزیشن میں تبدیلیاں بھی چین کے خلاف ایک نیا میدان بناتی ہیں۔ چین اور بھارت کے درمیان ہونے والی یہ کشیدگیاں عالمی سطح پر اس خطے کے بارے میں نئے سوالات اٹھا رہی ہیں۔
اقتصادی قوم پرستی اور تحفظ پسندی
چین کی طرح بھارت بھی اقتصادی قوم پرستی اور تحفظ پسندی کے رجحانات کو اپنانا شروع کر رہا ہے۔ "آتم نربھر بھارت” کی پالیسی کے تحت، بھارت نے اپنے مقامی صنعتوں کو فروغ دینے کے لیے غیر ملکی درآمدات پر ٹیکسز اور تجارتی پابندیاں لگائیں ہیں، جو چین کے اقتصادی حکمت عملی سے ملتی جلتی ہیں۔
اگرچہ بھارت نے اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا ہے، مگر یہ ملک کو عالمی معیشت سے الگ تھلگ بھی کر سکتا ہے، جیسا کہ چین کے معاملے میں ہوا تھا۔ اس سے غیر ملکی سرمایہ کاری پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں، اور بھارت کے لیے عالمی سپلائی چین سے جڑنا مشکل ہو سکتا ہے۔
نتیجہ
بھارت کی ترقی کے امکانات کی نظر سے، اس کی چین کے ساتھ مشابہت اس کے لیے ایک سنگین خطرہ بن سکتی ہے۔ اقتصادی سست روی، سیاسی مرکزی کنٹرول، علاقائی کشیدگیاں اور اقتصادی تحفظ پسندی وہ چیلنجز ہیں جو بھارت کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈال سکتے ہیں۔ عالمی سرمایہ کاروں کے لیے یہ سوالات اہم ہیں کہ آیا بھارت ان چیلنجز کا سامنا کرنے میں کامیاب ہو پائے گا یا نہیں۔ جیسے پاکستان میں کہا جاتا ہے، "آگے بڑھو اور سیکھو، ورنہ باقی سب تاریخ بن جائے گا!”
#BusinessTrendsPakistan #CryptoTradingTips #PakistaniStockMarket #UrduTechNews #DigitalEconomyPakistan #BitcoinPakistan #FinanceNewsPakistan #StartupTrendsUrdu #BlockchainBasics #UrduEconomicUpdates