لاہور:
قائم مقام ایرانی قونصل جنرل، علی اصغر یکدلیہ نے دل سے امید ظاہر کی ہے کہ پاکستان کے ساتھ ان کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات جتنے مضبوط ہیں، وہ مزید پھولیں پھریں گے، بالکل ایسے جیسے دال چاول میں ذائقہ آتا ہے۔
لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایل سی سی آئی) میں ہونے والی ایک تقریب میں قونصل جنرل نے بتایا کہ ایرانی قونصلیٹ نے لاہور چیمبر کے ساتھ ایک شاندار دوستی کا آغاز کیا ہے اور یہ تعاون مستقبل میں مزید نکھرے گا۔
"ہمارا قونصلیٹ ہمیشہ پاکستانی کاروباری برادری کے ساتھ کھڑا ہے، خاص طور پر ویزوں کے سلسلے میں، تاکہ کاروبار چلتا رہے۔ پنجاب اور لاہور کے ساتھ تعلقات کو مزید گہرا کرنا ہماری اولین ترجیح ہے اور ہم اس میں اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرنے کے لیے تیار ہیں۔”
انہوں نے یہ بھی کہا کہ دونوں حکومتیں مالیاتی لین دین اور دیگر مسائل کو حل کرنے پر مسلسل کام کر رہی ہیں، اور ایل سی سی آئی کی قیادت کو ایران کے قومی دن کی تقریبات میں شرکت کی دعوت دی۔
لاہور چیمبر کے صدر، میاں ابوذر شاد نے اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "ایران ہمارا عزیز ہمسایہ ملک ہے، اور ہم اپنے تجارتی اور سفارتی تعلقات کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ ہمارا مقصد ان تعلقات کو ایک مضبوط اقتصادی شراکت داری میں بدلنا ہے، جیسے چائے میں دودھ کا اضافہ!”
ایرانی قونصلیٹ کی مسلسل حمایت کا شکریہ ادا کرتے ہوئے، شاد نے کہا کہ قونصل جنرل ہمیشہ ایل سی سی آئی کے ساتھ قریبی تعلقات رکھتے ہیں، اور ویزا کے سلسلے میں چیمبر کی تجاویز کو اہمیت دیتے ہیں۔
تجارت کے امکانات پر بات کرتے ہوئے، شاد نے کہا کہ ایران پاکستان کا ایک اہم تجارتی پارٹنر ہے، اور پاکستان کی حکومت نے یکم جون 2023 کو SRO 642 جاری کر کے بزنس ٹو بزنس (B2B) بارٹر ٹریڈ کو ایک نئی سمت دی ہے، جیسے میٹھے آموں کو بازار میں لانچ کرنا۔
"اب یہ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے، یعنی حکومتیں، چیمبرز آف کامرس اور کمرشل سیکشنز کو اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھانا ہوگا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ ایران پاکستانی مصنوعات جیسے چاول، گوشت، ٹیکسٹائل، پھل، سبزیاں اور فارماسیوٹیکلز درآمد کر سکتا ہے، جبکہ پاکستان ایرانی پٹرولیم مصنوعات اور صنعتی خام مال سے فائدہ اٹھا سکتا ہے—بالکل جیسے چائے میں شیرنی کا اضافہ!
مزید تفصیلات
ایران پاکستان کے ساتھ اپنے تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے پرامید ہے۔ ایران کی حکومت اپنے تجارتی تعلقات کو بڑھانے کے لیے اپنی پالیسیوں کو جدید خطوط پر استوار کر رہی ہے، تاکہ نہ صرف تجارتی مواقع بڑھیں بلکہ ملکی معیشت میں بھی تنوع آئے۔ ایران کی اس حکمت عملی کا مقصد تیل پر انحصار کم کرنا اور دیگر شعبوں جیسے زراعت، صنعت اور خدمات میں ترقی کو فروغ دینا ہے۔
ایران کی تجارتی ترقی کی ایک اہم خصوصیت خطے میں تعاون ہے۔ حالیہ برسوں میں عالمی پابندیوں نے ایران کو عالمی منڈیوں میں آزادانہ تجارت میں مشکلات کا سامنا کیا، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں۔ لیکن ایران اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ تعلقات کو مزید مستحکم کرنے میں کامیاب ہو رہا ہے، جن میں پاکستان بھی شامل ہے۔ پاکستان اور ایران کی تاریخی، ثقافتی اور اقتصادی تعلقات نے دونوں ممالک کو قدرتی تجارتی پارٹنر بنا دیا ہے، اور دونوں کے درمیان مضبوط تجارتی تعلقات دونوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں۔
ایران اور پاکستان کے تجارتی تعلقات میں خاص طور پر کپڑے، زرعی مصنوعات اور صارفین کی اشیاء کا تبادلہ اہمیت رکھتا ہے۔ ایران پاکستان کو پیٹرولیم مصنوعات، گیس اور تیل برآمد کرتا ہے، جبکہ پاکستان ایران کو چاول، کپاس اور مشینری برآمد کرتا ہے۔ ان شعبوں میں مزید ترقی کی بڑی گنجائش موجود ہے، خاص طور پر دونوں ممالک کے درمیان موجودہ تجارتی معاہدوں اور بارٹر تجارتی میکانزم کے ذریعے۔ دونوں حکومتیں اس بات پر اتفاق کرچکی ہیں کہ بارٹر ٹریڈ (B2B) جیسے اقدامات سے تجارتی راستے کھلیں گے اور روایتی بینکاری نظام پر انحصار کم ہوگا، جو خاص طور پر پابندیوں کے دور میں فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ، دونوں ممالک دیگر شعبوں میں بھی تعاون بڑھانے کے خواہاں ہیں، جیسے کہ انفراسٹرکچر کی ترقی، توانائی کے منصوبے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی۔ مثال کے طور پر، پاکستان ایران کے قدرتی گیس ذخائر سے فائدہ اٹھانے کے لیے ایران-پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے پر بات چیت کر رہا ہے، جس سے پاکستان کو توانائی کی ضروریات پوری کرنے میں مدد ملے گی اور ایران کو ایک اہم توانائی فراہم کنندہ کے طور پر مزید مستحکم کر دے گا۔
ایران اور پاکستان کے تعلقات کو مزید فروغ دینے کے لیے دونوں ممالک نے کئی اقدامات کیے ہیں۔ دونوں حکومتیں تجارتی رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ پاکستان کی حکومت نے ایران کے ساتھ تجارت کرنے والی کمپنیوں کے لیے ٹیکس میں چھوٹ اور کسٹمز ڈیوٹی میں کمی جیسے مراعات کا اعلان کیا ہے۔ یہ اقدامات پاکستانی کاروباری طبقے کو ایران کے ساتھ تجارت میں حصہ لینے کے لیے مزید ترغیب دیتے ہیں۔
پاکستان کے لیے، ایران کے ساتھ تجارتی تعلقات میں اضافے سے زراعت اور ٹیکسٹائل جیسے اہم شعبوں میں نئے مواقع پیدا ہو سکتے ہیں۔ ایران کے لیے یہ ایک موقع ہے کہ وہ اپنے برآمدی منڈیوں کو مزید متنوع کرے اور تیل کی آمدنی پر انحصار کم کرے۔ دونوں ممالک کے لیے یہ تعلقات ایک دیرپا اور متوازن اقتصادی شراکت داری میں تبدیل ہو سکتے ہیں، جس سے دونوں ممالک کو فائدہ پہنچے گا۔
آخرکار، ایران کا پاکستان کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو مستحکم کرنے کی توقع ایک منطقی قدم ہے، جس میں دونوں ممالک کے درمیان وسیع تر تعاون کے امکانات ہیں۔ اگر دونوں حکومتیں اور نجی شعبے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں، تو یہ دونوں کے لیے خوشحالی اور ترقی کا باعث بن سکتے ہیں۔ اور آخرکار، پاکستان اور ایران کے تعلقات میں اتنی جمی ہوئی محبت کی طرح، جو لسی کے ساتھ کھانا ہوتا ہے، ان تعلقات کا بھی مستقبل روشن ہے!
#BusinessTrendsPakistan #CryptoTradingTips #PakistaniStockMarket #UrduTechNews #DigitalEconomyPakistan #BitcoinPakistan #FinanceNewsPakistan #StartupTrendsUrdu #BlockchainBasics #UrduEconomicUpdates