امریکی سینیٹر کرس وان ہولن نے متحدہ عرب امارات کو امریکی ہتھیاروں کی فروخت روکنے کے لیے قانون سازی کا جال بچھا لیا ہے، جب تک کہ امریکہ اس بات کی تصدیق نہ کر لے کہ متحدہ عرب امارات سوڈان میں پیرا ملٹری فورسز (RSF) کو اسلحہ نہیں فراہم کر رہا۔ یہ وہ ہی مسئلہ ہے جو دنیا کے کسی بھی بھارتی-پاکستانی خاندان کے درمیان ہو، "کیا تم نے وہ کام کیا؟” "نہیں! میں نہیں کرتا!” اور پھر سب کچھ فوراً پبلک ہو جاتا ہے۔ رائٹرز کے مطابق، وان ہولن نے سینیٹ میں ایک مشترکہ قرارداد پیش کی جبکہ ان کی ساتھی سارہ جیکبز نے ایوان نمائندگان میں اسی طرح کی ایک قرارداد جمع کرائی۔ دونوں کو کانگریس میں زیادہ حمایت ملنے کی توقع نہیں ہے، کیونکہ امریکی انتظامیہ، جو دونوں جماعتوں کے تحت ہے، متحدہ عرب امارات کو ایک اہم سیکیورٹی پارٹنر سمجھتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب دنیا کا سب سے بڑا درد بڑھ رہا ہو تو آپ اس پر خاموش کیسے رہ سکتے ہیں؟ وان ہولن نے کہا، "امریکہ سوڈان میں انسانی بحران میں خاموش نہیں بیٹھ سکتا۔ ہمیں اپنے اثر و رسوخ کو اس تنازعے کو پرامن حل کی طرف لے جانے کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔”
اب، امریکی قانون کے مطابق، اگر آپ بڑے ہتھیار خریدنا چاہتے ہیں تو کانگریس کا "ٹک ٹاک” ضروری ہوتا ہے۔ سینیٹ کے اراکین کو ان قراردادوں پر ووٹ دینے کا اختیار ہوتا ہے، جو اس طرح کی فروختوں کو روک سکتی ہیں، لیکن ایوان کے ارکان کے لیے ایسا نہیں ہوتا۔ اور اگر یہ قراردادیں دونوں ایوانوں سے منظور ہو گئیں تو صدارتی ویٹو کو بچانا بھی ایک مشکل کھیل ہو گا۔ حقیقت یہ ہے کہ ایسی قراردادیں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو سکیں، لیکن بحث کبھی بھی کم نہیں ہوتی، اور ان بحثوں میں "انسانی حقوق” اور "ہتھیاروں کی فروخت” پر "دماغی ورزش” ہوتی ہے۔
متحدہ عرب امارات کی بات کریں تو وہ امریکی ہتھیاروں کا ایک بڑا خریدار رہا ہے۔ اکتوبر میں، بائیڈن انتظامیہ نے 1.2 بلین ڈالر کی GMLRS اور ATACMS جنگی سازوسامان کی فروخت کی منظوری دی، جو کہ لاک ہیڈ مارٹن اور L3Harris Technologies کے تعاون سے تیار کیے گئے ہیں۔ اس سے سوال اٹھتا ہے: "یعنی یہ ہتھیار سوڈان کے حالات بہتر کرنے کے بجائے ان کے ہاتھوں میں جا سکتے ہیں؟”
صدر جو بائیڈن نے متحدہ عرب امارات کو ایک اہم دفاعی شراکت دار کے طور پر تسلیم کیا ہے، اور اس کی فوجی ایئر بیس، الظفرا، پر امریکی طیارے اور فوجی اہلکار موجود ہیں۔ لیکن سوڈان کی فوج نے متحدہ عرب امارات پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ وہ سوڈان کی 17 ماہ سے جاری جنگ میں RSF کو اسلحہ اور مدد فراہم کر رہا ہے، جس کی متحدہ عرب امارات تردید کرتا ہے۔ اقوام متحدہ نے اس الزام کو قابل اعتماد کہا ہے۔
سوڈان میں اپریل 2023 سے فوج اور RSF کے درمیان جنگ جاری ہے، جس میں دسیوں ہزار افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق، سوڈان کی نصف آبادی کو امداد کی ضرورت ہے اور قحط کا سامنا ہے، جبکہ تقریباً 8 ملین افراد اپنے گھروں سے بے گھر ہو چکے ہیں۔ سارہ جیکبز نے کہا، "متحدہ عرب امارات سوڈان میں تشدد کو بڑھانے والے سب سے بڑے بیرونی اداکاروں میں سے ایک ہے، اور پھر بھی امریکہ 1.2 بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کے لیے تیار ہے جو RSF کے ہاتھوں میں جا سکتا ہے۔” تو، یہ ہے وہ کھیل جس میں سب کچھ چمکتا ہے، لیکن سب کچھ دیکھنے کا نہیں ہے!
مزید تفصیلات
امریکی قانون سازوں نے متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کو ہتھیاروں کی فروخت روکنے کی کوششیں تیز کر دی ہیں، اور ان کا دعویٰ ہے کہ یو اے ای سوڈان میں پیرا ملٹری فورسز، یعنی "ریپڈ سپورٹ فورسز” (RSF) کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔ سینیٹر کرس وان ہولن نے سینیٹ میں ایک مشترکہ قرارداد پیش کی ہے، جس میں اس بات کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ جب تک یو اے ای یہ ثابت نہیں کرتا کہ وہ RSF کو اسلحہ نہیں دے رہا، اسلحہ کی فروخت کو روکا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ نمائندہ سارہ جیکبز نے ایوان میں بھی ایسی ہی قرارداد پیش کی ہے۔
اب بات یہ ہے کہ یہ ساری صورتحال تھوڑی پیچیدہ ہو گئی ہے۔ سوڈان میں جاری جنگ نے عالمی سطح پر ایک سنگین انسانی بحران کو جنم دیا ہے، جس میں ہزاروں افراد کی جانیں جا چکی ہیں اور لاکھوں لوگ اپنے گھروں سے بے دخل ہو چکے ہیں۔ یہ بحران تب اور بڑھا جب RSF اور سوڈانی فوج کے درمیان لڑائی شروع ہوئی، جس میں مزید انسانی حقوق کی پامالیوں کا سامنا ہوا۔ اور پھر یو اے ای پر یہ الزامات بھی لگے کہ وہ اس جنگ کو بڑھاوا دے رہا ہے اور RSF کو اسلحہ فراہم کر رہا ہے۔
یو اے ای نے ان الزامات کی تردید کی ہے، لیکن اقوام متحدہ کی رپورٹوں نے ان دعوؤں کو مزید تقویت دی ہے کہ یو اے ای نے دراصل RSF کو فوجی مدد فراہم کی تھی۔ اور اس کے بعد سے امریکی قانون سازوں میں یو اے ای کے ساتھ تعلقات پر سوالات اٹھنے شروع ہو گئے ہیں۔
اب بات یہ ہے کہ امریکہ کی حکومت، اور خاص طور پر بائیڈن انتظامیہ، یو اے ای کو ایک اہم دفاعی شراکت دار سمجھتی ہے۔ حالیہ دنوں میں امریکی حکومت نے یو اے ای کو 1.2 بلین ڈالر مالیت کے جدید جنگی سازوسامان کی فروخت کی منظوری دی ہے، جس میں گائیڈڈ ملٹی پل لانچ راکٹ سسٹمز (GMLRS) اور طویل فاصلے تک مار کرنے والے ATACMS میزائل شامل ہیں۔ اب آپ خود ہی سوچیں، اگر یہ اسلحہ یو اے ای کے ہاتھ میں ہے تو یہ کہیں نہ کہیں اس جنگ کی آگ بھڑکا سکتا ہے۔
امریکی کانگریس میں یہ قراردادیں منظور ہونے کے امکانات کم ہیں کیونکہ یو اے ای کی امریکہ کے ساتھ دفاعی شراکت داری کافی مضبوط ہے۔ مگر پھر بھی، اس پورے تنازعے نے عالمی سطح پر ایک بڑا سوال اٹھا دیا ہے کہ کیا امریکہ اپنی اسلحے کی فروخت پر انسانی حقوق کے خدشات کو اہمیت دے گا؟ اور کیا اس کے نتیجے میں یو اے ای کی حمایت میں کمی آئے گی؟
کچھ کچھ ایسا لگ رہا ہے جیسے یو اے ای اور امریکہ کے درمیان یہ سرد جنگ، ایک نئی عالمی سیاست کا رخ بدلنے والی ہو۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ کانگریس میں اس قرارداد کی قسمت کیا ہوتی ہے، اور آیا بائیڈن انتظامیہ ان سب باتوں کو نظرانداز کر کے یو اے ای کے ساتھ اپنی شراکت داری کو قائم رکھ پائے گی یا نہیں۔
تو، جی، یہ صورتحال ایسی ہے جیسے پاکستانی سیاست میں کہیں نہ کہیں ایک نیا تنازعہ چل رہا ہو، لیکن اس بار عالمی سطح پر!
#UrduBusinessNews #CryptoNewsPakistan #LatestFinanceTrends #TechUpdatesPakistan #UrduCryptoNews #StockMarketUpdates #AIInPakistan #BlockchainNewsUrdu #PakistaniEconomyUpdates #InvestmentNewsUrdu