امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان سکیورٹی معاہدے پر بات چیت، اسرائیل کے ساتھ نہیں ہوگا
ذرائع کے مطابق، امریکہ اور سعودی عرب ایک سکیورٹی معاہدے پر بات چیت کر رہے ہیں، تاہم اس میں اسرائیل کے ساتھ کوئی وسیع معاہدہ شامل نہیں ہوگا۔ یہ معاہدہ وہ دفاعی معاہدہ نہیں ہوگا جس پر پہلے بات کی جا رہی تھی، لیکن سعودی ولی عہد محمد بن سلمان (MBS) اور وائٹ ہاؤس دونوں کا ارادہ ہے کہ صدر بائیڈن کے جنوری میں عہدہ چھوڑنے سے پہلے یہ سکیورٹی معاہدہ طے پا جائے۔
جلدی پکڑیں: 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے پہلے، بائیڈن انتظامیہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان ایک بڑی ڈیل پر بات چیت کر رہی تھی، جس میں دونوں ممالک کے درمیان امن معاہدہ شامل تھا۔
وائٹ ہاؤس چاہتا تھا کہ اس ڈیل میں امریکہ-سعودی دفاعی معاہدہ اور سویلین جوہری تعاون بھی شامل ہو، اور انہیں یقین تھا کہ یہ بڑا معاہدہ امریکی سینیٹ سے منظور ہو جائے گا۔ تاہم، ایم بی ایس نے سوچا کہ یہ ڈیل صرف بائیڈن انتظامیہ کے تحت ممکن ہوگی۔
7 اکتوبر کے حملوں نے اس ڈیل کو دھچکہ پہنچایا، اور غزہ اور لبنان میں جاری جنگ اور فلسطینی ریاست کے حوالے سے سعودی مطالبات نے اس معاہدے کو تقریباً ختم کر دیا۔
پردے کے پیچھے: سعودی قومی سلامتی کے مشیر موساد بن محمد العیبان نے گزشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا اور امریکی حکام سے ملاقات کی۔ ذرائع کے مطابق، ملاقاتوں میں امریکہ اور سعودی عرب کے دو طرفہ تعلقات، خصوصاً سکیورٹی، ٹیکنالوجی اور اقتصادی معاہدوں پر بات چیت کی گئی۔
ایک ذریعے نے بتایا کہ اس ملاقات میں وہ سکیورٹی معاہدہ زیر بحث آیا جس کا مقصد اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں سے الگ تھا۔
خطوط کے درمیان: خیال کیا جا رہا ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان ایک دو طرفہ سکیورٹی معاہدہ تیار کیا جائے گا، جیسا کہ بائیڈن انتظامیہ نے حالیہ برسوں میں دیگر خلیجی ممالک کے ساتھ کیا۔
مارچ 2022 میں، بائیڈن نے قطر کو ایک اہم غیر نیٹو اتحادی نامزد کیا تھا، اور ستمبر 2023 میں امریکہ اور بحرین نے سکیورٹی انٹیگریشن کا معاہدہ کیا۔ ایک سال بعد، بائیڈن نے متحدہ عرب امارات کو بڑا دفاعی پارٹنر نامزد کیا۔
"سعودی عرب بھی اس میں شامل ہو سکتا ہے،” ایک ذریعے نے کہا۔
بڑی تصویر: پچھلے چار سالوں میں، بائیڈن انتظامیہ نے خلیج میں چین اور روس کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کی کوشش کی ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ کئی ممالک جو پہلے چین کے قریب جا رہے تھے اور روس سے اسٹریٹجک سامان خریدنے کی بات کر رہے تھے، اب امریکہ کے قریب آ گئے ہیں۔ سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے گزشتہ ہفتے سعودی عرب میں کہا کہ امریکہ سعودی عرب کے لیے ایک قابل اعتماد شراکت دار ہے۔ "آج امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمارے بہترین تعلقات میں سے ہیں، نہ صرف قومی سلامتی بلکہ اقتصادی تعاون میں بھی بہت اچھی پیشرفت ہو رہی ہے۔”
مزید تفصیلات
امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان سکیورٹی معاہدہ: اسرائیل سے الگ بات چیت
امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان سکیورٹی معاہدے پر بات چیت ایک دلچسپ موڑ پر ہے۔ جہاں ایک طرف یہ مذاکرات اسرائیل کے ساتھ ہونے والی بڑی ڈیل سے الگ ہیں، وہیں اس بات چیت نے پورے خطے کی سکیورٹی اور سیاسی منظرنامے کو تبدیل کرنے کا امکان بڑھا دیا ہے۔ خاص طور پر جب سے چین اور روس کا اثر بڑھا ہے، سعودی عرب اور امریکہ کی تعلقات میں ایک نیا جوش آیا ہے۔ تو، یہ معاہدہ کیسے اور کیوں ہو رہا ہے؟ چلیے، آپ کو تفصیل سے بتاتے ہیں!
امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات کا پس منظر
امریکہ اور سعودی عرب کے تعلقات ہمیشہ سے دفاع اور توانائی کے شعبوں میں مضبوط رہے ہیں۔ سعودی عرب کی تیل کی دولت اور اس کی جغرافیائی اہمیت نے اسے امریکہ کا اہم اتحادی بنایا۔ لیکن جب سے جو بائیڈن نے 2021 میں اقتدار سنبھالا، امریکی پالیسی میں کچھ تبدیلیاں آئیں۔ بائیڈن کی حکومت نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں چند سخت قدم اٹھائے، خاص طور پر جمال خشوگی کے قتل کے بعد۔ لیکن اس کے باوجود، سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان سکیورٹی تعاون جاری رہا، خصوصاً ایران کی بڑھتی ہوئی طاقت کے خلاف۔
ایران کا خطرہ اور خطے کی سکیورٹی
سعودی عرب کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہمیشہ سے ایران رہا ہے، جو مختلف خطوں میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا رہا ہے۔ سعودی عرب کا خیال ہے کہ ایران کی جوہری سرگرمیاں اور اس کے نیوکلیئر پروگرام کا بڑھنا اس کی سلامتی کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ سعودی عرب نے امریکہ کے ساتھ مل کر اپنے دفاعی صلاحیتوں کو بڑھایا ہے، خاص طور پر اس نے جدید میزائل دفاعی نظام حاصل کیے ہیں۔
لیکن اس دوران ایک اور دلچسپ بات سامنے آئی ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ کے تعلقات صرف دفاع تک محدود نہیں ہیں۔ یہ تعلقات اب اقتصادی تعاون اور سکیورٹی کے دوسرے پہلوؤں تک بھی پہنچ چکے ہیں۔ سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ "آج امریکہ کے ساتھ ہمارے تعلقات ہمارے بہترین تعلقات میں سے ہیں، نہ صرف قومی سلامتی بلکہ اقتصادی تعاون میں بھی بہت اچھی پیشرفت ہو رہی ہے۔” ویسے، سعودی عرب نے تو ایک ایسا دوست چن لیا ہے جسے امریکہ بھی اپنی طرف سے اچھا "سیکیورٹی پارٹنر” مانتا ہے۔
اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات: ایک نیا باب؟
اسرائیل اور سعودی عرب کے تعلقات میں ممکنہ تبدیلی پر بھی بات ہو رہی ہے۔ امریکہ چاہتا تھا کہ سعودی عرب اسرائیل کے ساتھ ایک امن معاہدہ کرے، لیکن سعودی عرب نے اس بات پر نظر ثانی کی۔ سعودی عرب ہمیشہ سے فلسطینیوں کے حقوق کا حامی رہا ہے، اور اسے یہ یقین ہے کہ اسرائیل کے ساتھ کوئی معاہدہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک فلسطین کے مسئلے کو حل نہیں کیا جاتا۔ اس لیے امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان بات چیت زیادہ تر سکیورٹی اور دفاعی تعاون پر مرکوز ہو چکی ہے۔
دفاعی معاہدے پر بات چیت: کیا ہو رہا ہے؟
اب بات چیت ایک الگ رخ اختیار کر چکی ہے، جہاں امریکہ اور سعودی عرب ایک دو طرفہ سکیورٹی معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ معاہدہ اسرائیل کے ساتھ ہونے والی بڑی ڈیل سے الگ ہو گا۔ سعودی عرب اور امریکہ اس بات پر متفق ہیں کہ ایران کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کے پیش نظر دونوں ممالک کو اپنے دفاعی تعاون کو مزید مضبوط کرنا ہوگا۔ اس معاہدے میں جدید دفاعی ٹیکنالوجی، مشترکہ فوجی مشقیں اور معلومات کے تبادلے جیسے امور پر بات ہو رہی ہے۔
اگر آپ پاکستانی ہوں، تو سوچیں کہ سعودی عرب اور امریکہ کی طرح آپ بھی اپنے دفاع کے لیے ہر نئے سکیورٹی سسٹم کی تلاش میں ہیں۔ اس معاہدے میں جو چیزیں شامل کی جا سکتی ہیں، وہ کچھ ویسی ہی ہیں جیسی کہ پاکستانی حکومت اپنے دفاعی منصوبوں میں کرتی ہے، بس فرق یہ ہے کہ سعودی عرب کے پاس تیل کی دولت ہے اور آپ کے پاس "چائے کا کپ”!
چین اور روس کے اثرات: امریکہ کی حکمت عملی
چین اور روس کی بڑھتی ہوئی موجودگی نے امریکہ کے لیے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ سعودی عرب، جس کا تعلق چین اور روس کے ساتھ بڑھ رہا تھا، اب امریکہ کے ساتھ مضبوط سکیورٹی تعلقات قائم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چین نے سعودی عرب میں مختلف انفراسٹرکچر منصوبوں میں سرمایہ کاری کی ہے، اور روس بھی ایران کے ساتھ مل کر خطے میں اپنے اثر و رسوخ کو بڑھا رہا ہے۔
یہ وہ وقت ہے جب سعودی عرب کو امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے، تاکہ خطے میں چین اور روس کے اثرات کو محدود کیا جا سکے۔ امریکہ اور سعودی عرب دونوں سمجھتے ہیں کہ اگر وہ ایک دوسرے کے قریب آئیں، تو یہ دونوں ممالک کو خطے میں اپنی حکمت عملی پر قابو پانے میں مدد دے گا۔
پاکستانی مزاح کے ساتھ ایک سنجیدہ موضوع
اب آپ سوچیں، پاکستان میں جب کسی کو نیا فون چاہیے یا اچھا ٹیلیویژن خریدنا ہو، تو ہم سب "دفاعی منصوبہ” بناتے ہیں۔ ایک طرف سے آپ کے والد صاحب کہہ رہے ہوتے ہیں، "پہلے بجلی کا بل ادا کر، پھر کچھ سوچیں!”، اور دوسری طرف چین اور سعودی عرب جیسے ممالک نئے دفاعی سسٹمز پر بات چیت کر رہے ہیں! ایسا لگتا ہے جیسے سعودی عرب، امریکہ اور چین سب اپنے دفاع کے لیے "ڈبل روٹی” کی طرح کچن میں ایک ساتھ بیٹھ کر گولے بنا رہے ہوں۔
نتیجہ
آخرکار، امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان سکیورٹی معاہدے کی بات چیت ایک بہت اہم قدم ہو سکتی ہے جو نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید مستحکم کرے گی بلکہ پورے خطے کی سکیورٹی کے ماحول کو بھی بہتر کرے گی۔ سعودی عرب، جو پہلے چین اور روس کے قریب جا رہا تھا، اب امریکہ کے ساتھ دفاعی معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے تاکہ خطے میں اپنے آپ کو محفوظ محسوس کرے۔ اس معاہدے کی کامیابی یا ناکامی پر پورے خطے کی سیاست اور معیشت کا انحصار ہو سکتا ہے۔
اور آخر میں، اگر آپ بھی اس "دفاعی معاہدے” کی اہمیت سمجھتے ہیں تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ سعودی عرب اور امریکہ جیسے بڑے ممالک بھی اپنی "چائے کی پارٹی” کو محفوظ رکھنے کے لیے کچھ "ڈبل روٹی” کے منصوبے بناتے ہیں۔